تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے بعد یزید بن قیس بولے کہ ہم لوگ سفیر ہو کر آئے ہیں‘ ہمارا یہ منصب نہیں کہ تم کو نصیحت کریں‘ لیکن ہم کو اس بات کی ضرور کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو‘ اور نا اتفاقی دور ہو‘ یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور ان کا مستحق خلافت ہونا بیان کیا‘ اس کے جواب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ہم کو جماعت کی طرف کیا بلاتے ہو جماعت ہمارے ساتھ بھی ہے‘ ہم تمہارے دوست کو مستحق خلافت نہیں سمجھتے کیوں کہ انہوں نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور اس کے قاتلین کو پناہ دی‘ صلح تو اس وقت ہو سکتی ہے جب کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ہمارے سپرد کر دیں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یہیں تک کہنے پائے تھے کہ شبث بن ربعی فوراً بول اٹھے کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ کیا تو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دے گا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھ کو عمار رضی اللہ عنہ کے قتل میں کونسی چیز منع کر سکتی ہے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام کے عوض قتل کر ڈالوں گا‘ شبث بن ربعی نے کہا کہ تو اس کے قتل پر ہرگز قادر نہ ہو سکے گا جب تک کہ زمین تجھ پر تنگ نہ ہو جائے گی‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے پہلے تو زمین تجھ پر تنگ ہو جائے گی‘ اس قسم کی سخت کلامی کے بعد یہ وفد بھی بلا نتیجہ واپس چلا آیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تاریخی تقریر اس کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ‘ شرجیل بن السمط‘ معن بن یزید کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطور سفیر روانہ کیا۔ حبیب بن مسلمہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ عثمان خلیفہ برحق تھے اور کتاب و سنت کے موافق حکم دیتے تھے‘ ان کی زندگی تم کو ناگوار گذری‘ اور تم نے اس کو قتل کر ڈالا‘ اگر تم نے ان کو قتل نہیں کیا تو ان کے قاتلین کو ہمارے سپرد کر دو‘ پھر خلافت سے دست بردار ہو جائو‘ اس کے بعد مسلمان جس کو چاہیں گے اپنا خلیفہ اور امیر مقرر کر لیں گے۔ یہ کلام سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور انہوں نے فرمایا‘ کہ تو خاموش ہو جا‘ امارت و خلافت کے متعلق ایسی تقریر کرنے کا تجھ کو کوئی حق نہیں ہے‘ حبیب بن مسلمہ نے کہا کہ تم مجھ کو ایسی حالت میں دیکھ لو گے جو تم کو ناگوار ہو گی‘ مدعایہ تھا کہ تلوار کے ذریعہ ہم فیصلہ کر لیں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا جو تیرا جی چاہے کرو۔ یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے‘ اور حمدو ثناء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کا ذکر کیا‘ پھر خلافت شیخین اور ان کے خصائل پسندیدہ کا ذکر کر کے فرمایا کہ ہم نے ان دونوں کو اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرتے ہوئے پایا‘ لہذا ہم نے باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رشتہ میں قریب تر تھے‘ ان کی خلافت میں کوئی دست اندازی نہیں کی‘ پھر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ان کا طرز عمل ایسا تھا کہ لوگ ان سے ناراض ہو گئے‘ اور انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر ڈالا‘ اس کے بعد لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی‘ میں نے اس درخواست کو قبول کر لیا‘ بیعت کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے عہد شکنی کی اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے