تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا علی کی طرف سے سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا معاویہ کی طرف سے ولید بن عقبہ نکلے اور صبح سے شام تک بڑی سخت لڑائی جاری رہی‘ چھٹے روز ادھر سے مالک اشتر اور ادھر سے حبیب بن مسلمہ دوبارہ نبرد آزما ہوئے‘ اس روز بھی شام تک کی زور آزمائی و خوں ریزی نے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا ساتویں روز سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بذات خود لشکر کو لڑائی پر آمادہ کیا اس روز بھی۔ اگرچہ لڑائی سابقہ ایام کی نسبت زیادہ سخت ہوئی‘ مگر دونوں فریق میدان میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔ اس جنگ ہفت روزہ میں ہر روز دونوں طرف سے نئے نئے سپہ سالار مقرر ہو ہو کر اپنی اپنی جنگی قابلیت کا اظہار کرتے رہے‘ چوں کہ دونوں لشکروں کی تعداد بھی نوے اور اسی ہزار یعنی قریباً برابر ہی تھی‘ اور طرفین کے لڑنے والوں میں بھی ایک ہی حیثیت اور ایک ہی سی طاقت و شجاعت والے لوگ تھے‘ لہذا کسی کو نہ فتح حاصل ہوئی نہ شکست‘ البتہ اس بات کا اظہار ہوتا رہا‘ کہ طرفین میں لڑائی کے لیے کافی جوش اور اظہار شجاعت کا کافی شوق ہے‘ یہ ہفتہ اسلام کے لیے بڑا ہی منحوس تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں پوری تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہی تھیں‘ اور دشمنان اسلام اطمینان کے ساتھ مصروف تماشا تھے‘ لیکن اس ہفتہ سے بھی زیادہ منحوس دو دن اور آنے والے تھے۔ جنگ صفین کے آخری دو دن پورے ایک ہفتہ کی سخت زور آزمائیوں کے بعد ۸ صفر ۳۷ ھ کو جمعرات کے روز دونوں لشکر آخری اور فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لیے تیار ہو گئے‘ چہار شنبہ و پنجشنبہ کی درمیانی شب دونوں نے فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں میں بسر کی‘ جمعرات کے دن نماز فجر کے وقت بعد از نماز فجر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے لشکر کو لے کر شامیوں پر حملہ کیا‘ اس حملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ قلب لشکر میں تھے جہاں کوفہ و بصرہ کے شرفاء اور اہل مدینہ جن میں اکثر انصار اور کمتر بنو خزاعہ و بنو کنانہ شامل تھے‘ میمنہ کی سرداری سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کو سپرد کی تھی اور میسرہ سیدنا عبداللہ کے سپرد کیا تھا‘ ہر ایک قبیلہ کے لیے جگہ اور مقام مقرر کر دیا گیا تھا‘ ہر ایک قبیلہ کا الگ الگ جھنڈا اور الگ الگ افسر تھا‘ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو آج رجز خوانوں اور قاریوں کا انتظام سپرد تھا‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن یزید بھی رجز خوانوں کی افسری پر مامور تھے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خیمہ میں بیٹھ کر لوگوں سے موت پر بیعت لی تھی‘ ان کے لشکر میں حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ میسرہ کے اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میمنہ کے افسر تھے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا میمنہ اول آگے بڑھا‘ اور عبداللہ بن بدیل خزاعی نے اپنی ماتحت فوج یعنی میمنہ کو لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ یعنی حبیب بن مسلمہ پر حملہ کیا‘ یہ حملہ اگرچہ نہایت سخت اور نقصان رساں تھا‘ لیکن اس کا نتیجہ لشکر شام کے لیے اچھا نکلا‘ حبیب بن مسلمہ کی رکابی فوج کو عبداللہ بن بدیل دباتے اور پیچھے ہٹاتے ہوئے اس مقام تک لے گئے جہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر موت کے لیے بیعت کی گئی تھی‘ اپنے میمنہ کی اس نازک حالت کو دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے