تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چوتھا نکاح آپ نے اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے کیا‘ جن کے بطن سے محمد الاصغر رضی اللہ عنہ اور یحییٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے‘ یہ آخرالذکر آٹھوں بھائی معرکہ کربلا میں اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے۔ پانچواں نکاح آپ نے امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہ بن الربیع بن عبدالعزی بن عبدشمس سے کیا‘ جن کی ماں زینب بنت رسول اللہ تھیں‘ ان کے بطن سے محمد الاوسط پیدا ہوئے۔ چھٹا نکاح آپ نے خولہ بنت جعفر سے کیا‘ جو قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتی تھیں‘ ان کے بطن سے محمد الاکبر پیدا ہوئے‘ جن کو محمد بن الحنفیہ بھی کہتے ہیں۔ ساتواں نکاح آپ نے صہبا بنت ربیعہ تغلبیہ سے کیا‘ جن کے بطن سے ام الحسن‘ رملۃ الکبریٰ اور ام کلثوم صغریٰ پیدا ہوئیں۔ آٹھواں نکاح آپ نے ام سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفیہ سے کیا جن سے تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ نواں نکاح آپ نے بنت امراء القیس بن عدی بن کلبی سے کیا‘ جن کے بطن سے صرف ایک لڑکی پیدا ہو کر کم سنی میں فوت ہو گئیں۔ مندرجہ بالا لڑکیوں کے سوا اور بھی لڑکیاں تھیں جن کے نام نہیں معلوم ہو سکے‘ ایک لڑکے آپ کے عون بن علی بھی تھے‘ جن کی نسبت بیان کیا گیا کہ وہ بھی اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ سلسلہ نسب آپ کا صرف حسن رضی اللہ عنہ ‘ حسین رضی اللہ عنہ ‘ محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہ ‘ عباس رضی اللہ عنہ اور جعفر رضی اللہ عنہ سے چلا‘ باقیوں کی نسل باقی نہ رہی۔ خلافت علوی پر ایک نظر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان عالی جاہ و بلند پایہ بزرگوں کے خاتم تھے‘ جن کے بعد کوئی شخص باقی نہ رہا‘ جس کی عزت و عظمت تمام عالم اسلامی میں مسلم ہو‘ اور وہ جرات و ہمت کے ساتھ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کر سکے‘ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سنا تو فرمایا‘ اب عرب لوگ جو چاہیں سو کریں‘ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد ایسا کوئی باقی نہ رہا کہ ان کو کسی برے کام سے منع کرے گا‘ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام ترک کر دیا تھا‘ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک ناصح اور واعظ کی حیثیت سے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جو لوگوں کو نبیوں اور پیغمبروں کی طرح حکم دیتے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پالیسی اور چالاکی سے قطعاً پاک اور مبرا تھے‘ ان کے نزدیک حق اور سچ کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا‘ وہ ابتدا ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے زیادہ حق دار خلافت سمجھتے تھے‘ لہذا انہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ اس کا اظہار کر دیا‘ اور چند روز تک سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی‘ پھر ان ہی ایام میں جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کو سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج پر آمادہ کرنا چاہا‘ تو انہوں نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نہایت حقارت کے ساتھ جھڑک