تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا عیاض بن غنم سے اب تک کے مفتوحہ شہروں کی شرائط پر صلح کر کے شہر کو سپرد کر دیا‘ سیدنا ابوعبیدہ نے ان شرائط کو جو عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے طے کی تھیں جائز قرار دیا اور اپنے دستخط سے معاہدہ لکھ دیا۔ حلب کو فتح کر کے سیدنا ابوعبیدہ انطاکیہ کی جانب بڑھے‘ انطاکیہ قیصر ہرقل کا ایشیائی دارالسلطنت تھا‘ یہاں ہرقل کے شاہی محلات بنے ہوئے تھے اور ہر قسم کی حفاظت کا سامان جو ایک دارالسلطنت کے لیے ضروری ہے یہاں موجود تھا اسی لیے مختلف مقامات کے مفرور عیسائی بھاگ بھاگ کر انطاکیہ ہی میں پناہ گزیں ہوئے تھے‘ حلب کے بھی بہت سے عیسائی انطاکیہ میں آ گئے تھے۔ جب مسلمان انطاکیہ کے قریب پہنچے تو عیسائیوں نے انطاکیہ سے نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور شکست کھا کر شہر میں جا گھسے‘ اسلامی لشکر نے انطاکیہ کا محاصرہ کیا‘ چند روز کے بعد شہر والوں نے مجبور ہو کر جزیہ کے وعدہ پر صلح کر لی‘ بعض عیسائی انطاکیہ سے کسی طرف کو خود ہی جلاوطن ہو گئے‘ مسلمانوں نے ان کے حال سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس کے بعد خبر پہنچی کہ حلب کے قریب مقام معرہ مصرین میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی لشکر جمع ہو رہا ہے‘ اس خبر کو سن کر سیدنا ابوعبیدہ اس طرف کو روانہ ہوئے‘ وہاں بڑی بھاری جنگ ہوئی‘ بہت سے عیسائی اور رومی سردار مارے گئے‘ اور اہل معرہ مصرین نے اہل حلب کی طرح صلح کر لی‘ یہاں یہ صلح نامہ ابھی مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ انطاکیہ والوں کی بغاوت و بدعہدی کی خبر پہنچی مگر عیاض بن غنم اور حبیب بن مسلمہ موجود تھے انہوں نے لڑ کر عیسائیوں کو پھر مغلوب کیا اور شہر پر قابض ہو گئے‘ اس بغاوت و بد عہدی کے بعد انطاکیہ والوں نے پھر پہلی شرائط پر ہی صلح کی درخواست کی‘ سیدنا ابوعبیدہ نے ان کی اس درخواست کو منظور کر لیا۔ عیسائیوں کی بار بار کی بغاوت و بدعہدی دیکھ کر سیدنا ابوعبیدہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ان عیسائیوں کے بار بار کے نقض عہد سے بعض اوقات اسلامی لشکر کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہو جاتا ہے‘ ان کے ساتھ کس خاص قسم کا برتائو کیا جائے؟ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے مرکزی شہروں اور قبوں میں جن کو تم فتح کر چکے ہو ایک ایک فوجی دستہ مدامی طور پر موجود رکھو‘ ایسے ہر ایک حفاظتی دستہ کو ہم بیت المال سے وظائف اور تنخواہیں دیں گے‘ فتح انطاکیہ کے بعد اردگرد کے تمام مواضعات و قصبات نے بطیب خاطر مسلمانوں کی اطاعت قبول کی‘ اور قورس بنج تل عزاز وغیرہ قصبات مع مفصلات بلا جنگ و پیکار مسلمانوں کی اطاعت و قبضہ میں داخل ہو گئے اور فرات تک شام کے تمام شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئے۔ فتح بغراس‘ مرعش‘ حدث اب شام کی طرف سے مطمئن ہو کر اور تمام شہروں میں عامل مقرر کرنے اور فوجی دستے متعین فرما دینے کے بعد سیدنا ابوعبیدہ نے فلسطین کی طرف توجہ فرمائی اور ایک لشکر میسرہ بن مسروق کی سرداری میں مقام بغراس کو روانہ کیا جو علاقہ انطاکیہ میں ایشیائے کوچک کی سرحد پر ایک مقام تھا ‘ یہاں بہت سے عرب قبائل غسان‘ تنوخ ایاد وغیرہ آباد تھے اور عیسائی مذہب رکھنے کی وجہ سے فتح انطاکیہ کا حال سن کر ہرقل