تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طلحہ رضی اللہ عنہ ‘ زبیر رضی اللہ عنہ تینوں کو قتل کر دیں گے۔ اس اعلان کو سن کر مدینہ والوں کے ہوش و حواس جاتے رہے وہ بے تابانہ اپنے اپنے گھروں سے نکل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے‘ اسی طرح باقی دونوں حضرات کے پاس بھی مدینہ والوں کے وفود پہونچے‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے تو صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہم خلافت کا بار اپنے کندہوں پر لینا نہیں چاہتے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اول انکار ہی کیا تھا‘ لیکن جب لوگوں نے زیادہ اصرار و منت و سماجت کی تو وہ رضا مند ہو گئے‘ ان کے رضا مند ہوتے ہی لوگ جوق در جوق ٹوٹ پڑے‘ اہل مدینہ نے بھی اور بلوائیوں کی جمعیت نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نام و نسب علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کو ابوالحسن اور ابوتراب کی کنیت سے مخاطب فرمایا‘ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا‘ آپ پہلی ہاشمیہ تھیں کہ خاندان بنو ہاشم میں منسوب ہوئیں‘ اسلام لائیں اور ہجرت فرمائی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے چچازاد بھائی تھے‘ اور داماد بھی‘ یعنی وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شوہر تھے‘ آپ میانہ قد مائل بہ پستی تھے‘ دوہرا بدن‘ سر کے بال کسی قدر اڑے ہوئے‘ باقی تمام جسم پر بال ‘ لمبی اور گھنی داڑھی‘ گندم گوں تھے۔ آپ کی خصوصیات سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے‘ آپ ان لوگوں میں سے ہیں‘ جنہوں نے قرآن مجید کو جمع کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تھا‘ آپ بنی ہاشم میں سب سے پہلے خلیفہ تھے‘ آپ نے ابتدائی عمر سے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی تو آپ کو مکہ میں اس لیے چھوڑ گئے کہ تمام امانتیں لوگوں کو پہنچا دیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کی تعمیل کرنے کے بعد آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچ گئے‘ سوائے ایک جنگ بتوک کے اور تمام لڑائیوں میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شریک ہوئے‘ جنگ تبوک جاتے وقت آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عامل یعنی قائم مقام بنا گئے تھے‘ جنگ احد میں سیدنا علی کے جسم مبارک پر سولہ زخم آئے تھے‘ جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا تھا اور پہلے سے فرما دیا تھا کہ خیبر آپ کے ہاتھ پر فتح ہو