تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲؎ دور خیر القرون میں مسلمانوں کا نعرہ‘ نعرئہ تکبیر یعنی اللہ اکبر ہی ہوتا تھا۔ یہ امت جیسے جیسے دور خیر سے دور شر کی طرف آتی گئی‘ فکری و عملی بگاڑ کی طرف بڑھتی گئی۔ اب جبکہ ہر طرف شر غالب ہے اور طاغوتی‘ مشرکانہ و کفریہ نظام مسلط ہیں‘ دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ امت کے نعرے بھی غیر شرعی بن گئے ہیں‘ الا ما شاء اللہ۔ چنانچہ بہت سے ایسے نعروں پر ہی زور دیا جا تا ہے‘ جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش اور اجازت نہیں دی گئی‘ العیاذباللہالعظیم ۳؎ صحیحبخاریکتابالجھادحدیث۲۹۳۰۔صحیحمسلمکتابالجھادوالسیربابغزوۂحنین۔ تھی‘ کیونکہ انہوں نے خود بھاگ کر دوسروں کے قدم بھی متزلزل کر دئیے تھے‘ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی شجاعت اور استقلال نے تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کو سنبھال لیا اور دشمنوں کو شکست فاش نصیب ہوئی۔ جس وقت لڑائی کا عنوان بگڑا ہوا تھا اور مسلمانوں میں جنگ کی افراتفری نمودار تھی تو ایک شخص مکہ والوں میں خوشی کے لہجے میں پکار اٹھا کہ لو آج سحر کا خاتمہ ہو گیا‘ ایک شخص نے کہا کہ مسلمانوں کی ہزیمت اب رک نہیں سکتی‘ یہ اسی طرح ساحل سمندر تک بھاگتے ہوئے چلے جائیں گے‘ ایک شخص شیبہ نامی نے کہا آج میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے بدلہ لوں گا‘ یہ کہہ کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف برے ارادہ سے چلا لیکن راستے ہی میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔۱؎ ہوازن کے میدان جنگ میں بہت سے آدمی مارے گئے اور وہ بالآخر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے‘ ان کے بعد قبائل ثقیف کے لوگوں نے تھوڑی دیر میدان کار راز کو گرم رکھا آخر وہ بھی فرار کی عارگوارا کرنے پر مجبور ہوئے‘ اس لڑائی میں دشمنوں کے بڑے بڑے سردار اور بہادر لوگ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے‘ لیکن ان کا سپہ سالار اعظم مالک بن عوف فرار ہو کر طائف کی طرف گیا اور طائف والوں نے ان مفروروں کو اپنے یہاں پناہ دے کر شہر کے دروازے بند کر لیے‘ مفرورین کا ایک حصہ مقام اوطاس میں جمع ہوا اور ایک حصہ نے مقام نخلہ میں پناہ لی‘ دونوں جگہ مقابلہ اور مقاتلہ ہوا‘ لیکن مسلمانوں نے ہر مقام پر دشمنوں کو شکست دے کر بھگا دیا‘ اور مال غنیمت نیز قیدیوں کو لے کر واپس ہوئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام اسیران جنگ اور مال غنیمت کو مقام جعرانہ میں جمع کرنے کا حکم دیا اور سیدنا مسعود بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کو حفاظت کے لیے مقرر فرما کر طائف کا قصد فرمایا۔ اس لڑائی میں چھ ہزار قیدی ۲۴ ہزار اونٹ‘ ۴۰ ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں‘ چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آئی‘ یہ لڑائی جنگ حنین کے نام مشہور ہے‘ تمام قبائل ثقیف طائف میں جمع ہو چکے تھے‘ اور اہل طائف ان کے ہمدردر بن چکے تھے۔ طائف کا محاصرہ وادی حنین سے طائف کی طرف جاتے ہوئے راستے میں مالک بن عوف کا قلعہ آیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قلعہ کو منہدم کرا دیا‘ پھر قلعہ اطم آیا‘ اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا‘ طائف کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل طائف کو مقابلہ پر آمادہ دیکھا اور طائف کا محاصرہ کر لیا‘ بیس روز تک طائف کا ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۱۲۔ محاصرہ جاری رہا‘ اس بیس روز کے اندر طائف کے ارد گرد کے علاقوں سے اکثر قبائل