تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے خیمے میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی‘ پھر یزید بن قیس کو اصفہان ورے کا گورنر مقرر کیا اس کے بعد اس جلسہ میں تشریف لائے‘ جہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے خوارج کا مباحثہ ہو رہا تھا‘ آپ نے فرمایا تم سب میں زیادہ سمجھدار اور پیشوا کون ہے‘ انہوں نے کہا عبداللہ بن الکواء آپ نے عبداللہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی‘ بیعت کرنے کے بعد پھر اس سے خارج ہونے اور خروج کرنے کا سبب کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ آپ کے بے جا تحکم کی وجہ سے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں‘ کہ میری رائے لڑائی کے روکنے اور بند کرنے کی نہ تھی مگر تم نے لڑائی کا بند کرنا ضروری سمجھا اور مجھ کو مجبوراً پنچایت کے فیصلہ پر رضا مندی ظاہر کرنی پڑی‘ تاہم میں نے دونوں پنچوں سے عہد لے لیا ہے‘ کہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے‘ اگر انہوں نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا تو کوئی نقصان نہیں‘ اور اگر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا تو ہم اس کو ہرگز قبول نہ کریں گے‘ خوارج نے یہ سن کر کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی خوں ریزی کا اقدام اور بغاوت کا ارتکاب کیا‘ اس میں حکم کا مقرر کرنا ہرگز عدل کی بات نہیں ہے‘ اس کے لیے قرآن میں صاف احکام موجود ہیں کہ وہ واجب القتل ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے درحقیقت آدمیوں کو حکم نہیں بنایا‘ حکم تو قرآن مجید ہی ہے آدمی قرآن کے فیصلے کو سنا دیں گے۔ پھر خوارج نے اعتراض کیا کہ بھلا چھ مہینے کی طویل مہلت دینے کی کیا ضرورت تھی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں ممکن ہے کہ مسلمانوں کا اختلاف خود بخود دور ہو جائے۔ غرض اسی قسم کی باتیں دیر تک رہیں‘ خوارج کے ایک سردار کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اصفہان اور رے کا حاکم مقرر فرما چکے تھے‘ ادھر عوام پر ان باتوں کا کچھ اثر ہوا‘ خوارج خاموش ہو گئے‘ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نرمی کے ساتھ ازراہ شفقت فرمایا کہ چلو‘ شہر کوفہ کے اندر چل کر قیام کرو‘ اس چھ مہینے کے عرصہ میں تمہاری سواری اور باربرداری کے جانور بھی موٹے تازے ہو جائیں گے‘ پھر اس کے بعد دشمن کے مقابلہ کو نکلیں گے‘ یہ سن کر وہ رضا مند ہو گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہو کر کوفہ میں داخل ہوئے اور پنچوں کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی طرف رخصت کر دیا‘ کیونکہ وہ بصرہ کے گورنر تھے‘ اور ان کو اب بصرہ میں پہنچ کر وہاں کے انتظامات کو درست کرنا تھا۔ مقام اذرح میں حکمین کے فیصلے کا اعلان جب چھ مہینے کی مہلت ختم ہونے کو آئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا‘ اور شریح بن ہانی الحارثی کو چار سو آدمیوں کی سرداری پر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو نمازوں کی امامت پر مقرر فرما کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مقام اذرح کی طرف روانہ کیا‘ اور شریح بن ہانی کو سمجھا دیا کہ جب اذرح میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ راستی اور صداقت کو ترک نہ کیجئے اور قیامت کے دن کو یاد رکھئے۔ اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو