تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سعد میں شامل ہوئے‘ اسی جگہ سیدنا مثنی کے بھائی معنی بن حارثہ شیبانی سیدنا سعد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ تمام ضروری ہدایتیں جو سیدنا مثنی نے فوت ہوتے وقت فوج اور دشمن کی جنگ کے متعلق بیان فرمائی تھیں بیان کیں‘ اسی جگہ وہ آٹھ ہزار کا لشکر بھی جو سیدنا مثنی کے پاس تھا لشکر سعد میں آ کر شامل ہو گیا‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص نے اس جگہ لشکر اسلام کا جائز لیا‘ تو بیس اور تیس ہزار کے درمیان تعداد تھی‘ جس میں تین سو صحابی ایسے تھے جو بیعت الرضوان میں موجود تھے اور ستر صحابی ایسے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ابھی مقام سیراف میں مقیم تھے کہ فاروق اعظم کا پیغام ان کے نام پہنچا کہ قادسیہ کی طرف بڑھو اور قادسیہ میں پہنچ کر اپنے مورچے ایسے مقام پر قائم کرو کہ تمہارے سامنے فارس کی زمین ہو اور تمہارے پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں‘ اگر اللہ تعالیٰ تم کو فتح نصیب کرے تو جس قدر چاہو بڑھتے چلے جائو لیکن خدانخواستہ معاملہ برعکس ہو تو پہاڑ پر آ کر ٹھہرو اور پھر خوب چوکس ہو کر حملہ کرو‘ سیدنا سعد نے اس حکم کے موافق مقام سیراف سے کوچ کیا اور سیدنا زبیر بن عبداللہ بن قتادہ کو مقدمۃ الجیش کا‘ عبداللہ بن المعتصم کو میمنہ کا‘ شرجیل بن السمط کندی کو میسرہ کا‘ عاصم بن عمر تمیمی کو ساقہ کا سردار مقرر کیا‘ لشکر سعد میں سیدنا سلمان فارسی سامان رسد کے افسر اعلیٰ تھے‘ عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی قاضی و خزانچی تھے‘ ہلال ہجری مترجم اور زیاد بن ابی سفیان کاتب یا سکریٹری تھے‘ سیدنا سعد اپنا لشکر لیے ہوئے مقام سیراف سے قادسیہ کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں مقام عذیب آیا جہاں ایرانیوں کا میگزین تھا‘ اس پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے‘ قادسیہ پہنچ کر لشکر فارس کے انتظار میں قریباً دو ماہ کا انتظار کرنا پڑا‘ اس زمانہ میں لشکر اسلام کو جب سامان رسد کی ضرورت ہوتی تو ایرانی علاقوں پر مختلف دستے چھاپے مارتے اور ضروری سامان حاصل کرتے۔ مدائن سے رستم کی روانگی دارالسلطنت ایران میں پیہم خبریں پہنچنی شروع ہوئیں کہ قادسیہ میں عربی لشکر کا قیام ہے اور فرات وغیرہ کا درمیانی علاقہ عربوں نے لوٹ کر ویران کر دیا ہے‘ قادسیہ کے متصلہ علاقوں کے لوگ دربار میں شاکی بن کر پہنچنے شروع ہوئے کہ جلد کچھ تدارک ہونا چاہیے ورنہ ہم سب مجبوراً عربوں کی فرماں برداری اختیار کر لیں گے‘ دربار ایران میں رستم بہت عقلمند اور تجربہ کار شخص تھا‘ اس کی رائے آخر تک یہی رہی کہ عربوں کو ان کے حال پر آزاد چھوڑ دیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو جنگ و پیکار کے مواقع کو ٹال دیا جائے‘ لیکن یزد جرد شہنشاہ ایران نے ان خبروں کو سن کر رستم اپنے وزیر جنگ کو طلب کیا اور حکم دیا تو خود لشکر عظیم لے کر قادسیہ کی طرف روانہ ہو اور عربوں کے روز روز کے جھگڑے کو پورے طور پر ختم کر دے‘ رستم چاہتا تھا کہ یکے بعد دیگرے دوسرے سرداروں کو روانہ کرے اور مسلسل طور پر لڑائی کے سلسلے کو جاری رکھے لیکن یزدجزد کے اصرار پر مجبوراً رستم کو مدائن سے روانہ ہونا پڑا۔ رستم نے مدائن سے روانہ ہو کر مقام ساباط میں قیام کیا اور ملک کے ہر حصہ سے افواج آ آ کر اس کے گرد جمع ہونی شروع ہوئی‘ یہاں تک کہ ڈیڑھ لاکھ ایرانی لشکر ساباط میں رستم کے گرد جمع ہو گیا‘ جو ہر طرح سامان حرب سے مسلح اور لڑائی کے جوش و شوق میں ڈوبا ہوا تھا۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دربار خلافت میں ایرانیوں کی جنگی تیاریوں اور نقل و حرکت کے حالات بھیجے‘ فاروق اعظم نے سیدنا