تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور کشت و خون کے ارادے سے باز رکھا‘ چنانچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ ماجدہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس دفن کر دیا گیا‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے نو بیٹے اور چھ بیٹیاں کل پندرہ اولاد تھیں۔ خلافت حسنی پر ایک نظر بعض مؤرخین نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شش ماہ خلافت کو خلافت راشدہ میں شامل نہیں سمجھا‘ کیونکہ وہ قلیل مدت کے لیے تھی‘ اور نامکمل تھی‘ نا مکمل کہنا اس لیے نا درست ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی پھر تو نا مکمل کہہ کر خلافت راشدہ سے خارج کرنا پڑے گا‘ حالانکہ یہ جائز نہیں‘ مدت خلافت کا کم ہونا بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اگر صبرو سکون کے ساتھ نظر ڈالی جائے‘ تو وہ خلافت راشدہ کا نہایت ہی اہم حصہ ہے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت اگرچہ ملکی فتوحات اور جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے خالی ہے‘ لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جنگ کے میدان گرم کئے اور خون کے دریا بہائے بغیر اسلام اور عالم اسلام کو اس قدر فائدہ پہنچا دیا‘ جو شاید بیسیوں برس کی خلافت اور سینکڑوں لڑائیاں لڑنے کے بعد بھی نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ خدمت اسلام کے اعتبار سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ یقینا خلفاء راشدین کے پہلو بہ پہلو جگہ پانے کا حق رکھتے تھے‘ انہوں نے دس سال کی خانہ جنگی کو جس کے دور ہونے کی توقع نہ تھی یک لخت دور کر دیا‘ انہوں نے منافقوں اور مسلم نما یہودیوں کی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں کو جو دس سال سے نشونما پا کر اب بہت طاقتور اور عظیم الشان ہو چکی تھیں‘ یکایک درہم برہم کر دیا اور شرارت پیشہ لوگ حیران و مبہوت ہو کر ان کا منہ تکنے لگے۔ انہوں نے دس سال سے رکی ہوئی فتوحات اسلامی کو پھر جاری ہونے کا موقع دیا‘ انہوں نے مشرکین کے اطمینان کو جو دس سال سے مسلمانوں کی خانہ جنگی کا تماشا مزے لے کر دیکھ رہے تھے برباد کر دیا۔ انہوں نے ان خارا شگاف تلواروں اور آہن گداز نیزوں کا رخ دشمنان اسلام کی طرف پھیر دیا‘ جو اس سے پہلے مسلمانوں کی گردنیں اڑانے اور سینے زخمی کرنے میں مصروف تھے‘ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر بہادری کا نمونہ دکھایا‘ جب کہ کوفہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ ان کے اپنے ان مختصر الفاظ سے کہ۔ اگر امارت و خلافت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا‘ تو میں نے ان کو بخش دیا۔ نہ صرف اسی زمانے کے مسلمانوں کو عظیم الشان درس معرفت حاصل ہوا بلکہ قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی رہبری کا عظیم الشان کام انجام دینے کی غرض سے خونخوار و بے پناہ سمندروں کی تاریکیوں میں ایک لائٹ ہائوس قائم ہو گیا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار جنگجو فوج موجود تھی‘ یہ فوج خواہ کیسے ہی بے وقوف اور متلون مزاج لوگوں پر مشتمل ہو‘ اور ان سے کیسی ہی گستاخیاں بھی سرزد ہوئی ہوں‘ لیکن اہل شام اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑنے اور مارنے مرنے کا حلف سب اٹھائے ہوئے تھے‘ ایسی حالت میں ایک ۳۷ سال جوان العمر جنگ