تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھائی ہو۔۱؎ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم سب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ زیادہ معاملہ فہم ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ سنت کا اب کوئی واقف نہیں رہا‘ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دو شخص شقی ترین ہیں ایک احمر‘ جس نے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں‘ اور دوسرا وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا۔۲؎ آپ کے قضایا و کلمات سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دین کے معاملہ میں میرا دشمن بھی مجھ سے استفتاء کرتا ہے‘ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھ بھیجا ہے کہ خنثیٰ مشکل کی میراث میں کیا کیا جائے‘ میں نے اسے لکھ بھیجا ہے کہ اس کی پیشاب گاہ کی صورت سے میراث کا حکم جاری ہونا چاہیے‘ یعنی اگر اس کی پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہو تو اس کا حکم مرد کا ہو گا اور اگر عورت کی طرح ہو تو عورت کی طرح کا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ جب بصرے میں تشریف لے گئے تو ابن کوا اور قیس بن عبادہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جائو گے‘ اس معاملہ میں آپ سے بڑھ کر اور کون ثقہ ہو سکتا ہے‘ ہم آپ ہی سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے‘ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کوئی وعدہ فرمایا تھا‘ اگر فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کوئی ایسا وعدہ فرمایا ہوتا تو میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر پر کیوں کھڑا ہونے دیتا اور ان کو اپنے ہاتھ سے قتل نہ کر دیتا‘چاہے میرا ساتھ دینے والا ایک بھی نہ ہوتا‘ بات یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری نے طول کھینچا‘ تو ایک روز مؤذن نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے واسطے بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے جائو وہ میری جگہ نماز پڑھائیں گے‘ لیکن ام المومنین (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ) نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو غصہ آیا اور فرمایا کہ تم سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی عورتیں ہو۔۳؎ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو لے جائو‘ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ۱؎ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ابن کثیر ج ۱ ص ۵۰۸۔ ۲؎ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۹۰۔ ۱؎ صحیحبخاریکتابالاذانحدیث۶۶۴۔صحیحمسلمکتابالصلوٰۃباباستخلافالامام۔ وفات پائی تو ہم نے اپنی جگہ غور کیا تو اس شخص کو اپنی دنیا کے واسطے بھی قبول کر لیا‘ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے دین کے واسطے انتخاب فرمایا تھا‘ کیوں کہ نماز اصل دین ہے اور آپ دین کے امیر اور دنیا کے قائم رکھنے والے تھے‘ پس ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستحق سمجھ کر ان