تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیونکہ یمامہ و یمن کے فتنوں اور عرب کے عیسائیوں کی سازشوں نے رومیوں کو پھر ملک عرب کی طرف متوجہ کر دیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسرے ۱؎ صحیح بخاری‘ کتاب المغازی‘ حدیث ۴۳۷۹۔ دن سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید بن حارثہ کو سالار لشکر بنا کر فرمایا کہ تم اپنے باپ کے مقتل پر اس قدر جلد جائو کہ وہاں کے لوگوں کو تمہارے آنے کی خبر نہ ہو‘ ان شاء اللہ تعالی تم کو فتح حاصل ہوگی‘ ۲۸ صفر ۱۱ ع کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بیماری کا اشتداد ظاہر ہوا‘ اسی بیماری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے اسامہ رضی اللہ عنہ کا جھنڈا درست کر کے فوج کو روانہ فرمایا اور تمام جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ‘ عباس رضی اللہ عنہ ‘ عثمان رضی اللہ عنہ ‘ علی رضی اللہ عنہ ‘ سب اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ماتحت بنا کر روانہ کئے گئے‘ مگر علالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی اجازت سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ کو تیمارداری کے لیے مدینہ میں رکھ لیا تھا‘ باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنھم اسامہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے ایک کوس چل کر مقام جرف میں قیام کیا‘ وہاں سے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر لیے ہوئے جرف میں پڑے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی علالت کی حالت دیکھ کر کوچ نہ کر سکے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس حالت میں ان کو کوچ کرنے کا حکم نہ دیا اور معہ لشکر ان کے جرف میں مقیم رہنے کو جائز رکھا‘ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی سرداری سے بعض لوگوں کو انقباض پیدا ہوا کہ ان کے باپ زید رضی اللہ عنہ غلام تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان چہ میگوئیوں کو سنا تو لوگوں کو بلا کر کہا کہ جب اس کا باپ سالار لشکر رہ چکا ہے تو اس کی سرداری میں کیوں اعتراض کیا جاتا ہے‘ پھر فرمایا کہ زید اول المسلمین میں سے ہیں‘ ان کا مرتبہ اسلام میں بہت بڑا ہے‘ غرض جن کو اعتراض تھا‘ وہ نادم ہوئے اور پھر بخوشی ان کی سرداری کو تسلیم کیا۔۱؎ علالت میں اضافہ بیماری روز بروز زیادہ ہوتی گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے کمرہ میں قیام کرنے کی اجازت طلب کی‘ سب نے بخوشی اجازت دے دی۔۲؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں گئے‘ پھر باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے مجمع میں ایک تقریر فرمائی اور کہا میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کرتا ہوں‘ اللہ تعالی تم کو ہدایت دے اور میں اس کو تم پر چھوڑتا ہوں اور تم کو اس کے سپرد کرتا ہوں‘ میں تم کو دوزخ سے ڈرانے والا ہوں اور جنت کی بشارت دینے ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۶۹۔سیرتابنہشامصفحہ۶۰۵۔ ۲؎ صحیح بخاری‘ کتاب الوضوء‘ حدیث ۱۹۸۔ صحیح مسلم‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب استخلاف الامام۔ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۶۰۴۔