تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے شہر و قلعہ کا محاصرہ کر لیا‘ اسی حالت میں خبر پہنچی کہ ایک رومی سردار زبردست فوج لیے ہوئے دمشق کی جانب گیا ہے تاکہ اس کو مسلمانوں کے قبضے سے نکال لے‘ یہ خبر سن کر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سواروں کا ایک دستہ دے کر دمشق کی جانب روانہ کیا‘ رومی سردار جب دمشق کے قریب پہنچا تو یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ عامل دمشق اس کے مقابلہ کو نکلے اور ہنگامہ جدال و قتال گرم ہوا‘ عین معرکہ جنگ میں رومیوں پر پیچھے سے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پہنچ کر حملہ آور ہوئے اور اس رومی لشکر سے ایک شخص بھی بچ کر بھاگنے کا موقعہ نہ پا سکا‘ سب کے سب میدان جنگ میں کھیت رہے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یہاں سے فارغ ہوتے ہی واپس ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ بیسان والوں نے اول مسلمانوں کا مقابلہ کرنے اور حملہ آور ہونے میں کمی نہیں کی‘ لیکن بالآخر اپنے آپ کو اسلامی لشکر کے مقابلے کے قابل نہ پا کر صلح کی درخواست کی اور اسلامی سپہ سالار نے بخوشی اس درخواست کو منظور کر کے اہل بیسان پر جزیہ مقرر کر دیا اور ایک عامل وہاں مقرر فرما دیا‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ابولاعور اسلمیٰ رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج دے کر طبریہ کی جانب روانہ کیاتھا‘ اہل طبریہ نے بیسان والوں کا انجام دیکھ کر ابوالاعور رضی اللہ عنہ کو بمصالحت شہر سپرد کر دیا۔ صیداء ‘ عرقہ ‘ جبیل ‘ بیروت کی فتح یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے دمشق کے انتظامات پر قابو پا کر اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو ایک دستہ فوج دے کر عرقہ کی جانب روانہ کیا‘ انہوں نے عرقہ کو فتح کر لیا‘ پھر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ صیدا و جبیل بیروت کی طرف متوجہ ہوئے اور معمولی زدو خورد کے بعد ان تمام مقامات پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ اس طرح دمشق اور تمام علاقہ اردن مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ عراقی معرکہ فتح یرموک کے بعد ملک شام میں مذکورہ بالا فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہو چکیں تو انہوں نے اب حمص کی طرف جہاد قیصر ہرقل فروکش تھا بڑھنے کی تیاریاں کیں‘ اب ملک شام اور رومی لشکروں کے ساتھ مسلمانوں کی معرکہ آرائیوں کے حالات و واقعات بیان کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ملک عراق کے ان حالات اور واقعات کو بھی بیان کر دیا جائے جو خلافت فاروقی کی ابتداء سے لے کر اب تک وقوع پذیر ہوئے تھے‘ اگر ہم ملک شام کے واقعات کی سیر کرتے ہوئے دور تک آگے بڑھ گئے تو پھر ملک عراق کے حالات بہت زیادہ پیچھے ہٹ کر شروع سے مطالعہ کرنے میں وہ لطف حاصل نہ ہو سکے گا جو شامی و عراقی معرکہ آرائیوں کی متوازی سیر اور تطابق زمانی کے صحیح تصور سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ابوعبید بن مسعود کا پہلا کارنامہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے پہلے ہی ہفتے میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ ‘ سعد بن عبید رضی اللہ عنہ ‘ سلیط بن قیس اور ابوعبید بن مسعود رضی اللہ عنہ کو عراق کی جانب روانہ کر دیا تھا‘ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے تو باقی مذکورہ سرداروں کے ساتھ ہی روانہ ہوئے تھے‘