تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اپنے گھر بار کی حفاظت کے لیے تم کو مدینے میں چھوڑا تھا‘ تم واپس جائو‘ اور ان کی دل دہی کے لیے فرمایا کہ تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو سیدنا ہارون علیہ السلام کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے تھی‘ مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہاں سے پھر مدینے کو واپس تشریف لے گئے۔۱؎ بعض صحابی رضی اللہ عنہ جو کسی سستی یا غفلت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روانہ نہ ہو سکے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روانگی کے بعد مدینے سے روانہ ہو کے اور راستہ کے منزلوں پر شریک لشکر ہوتے گئے‘ بعض منافقین جو مسلمانوں کو بددل کرنے کے لیے شریک لشکر تھے وہ راستہ کی مختلف منزلوں سے جدا ہو ہو کر واپس ہوتے رہے‘ مگر ان کی اس حرکت نا معقول کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کے حال سے کوئی تعرض نہ فرمایا‘ اور جو راستہ میں رہ گیا اس کے متعلق پرواہ نہ کی۔ راستہ میں قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں آئیں‘ اس علاقہ کا نام حجر تھا‘ جب لشکر اسلام اس قطعہ اراضی میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہاں سے استغفار پڑھتے ہوئے جلدی گذر جائو اور یہاں کے کنویں کا پانی بھی نہ پیو۔ اسی علاقہ حجر کے حدود میں ایک شب قیام کرنا پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص تنہا لشکر گاہ سے باہر نہ نکلے‘ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈر کے قریب سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چادر سے اپنا منہ چھپا لیا اور سواری کو مہمیز لگا کر تیز کر دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب ظالموں اور گناہگاروں کی بستی میں جائو تو ڈرتے ہوئے اور استغفار پڑھتے ہوئے جائو کہ مبادا ہمیں بھی ایسی ہی ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۴۱۶۔صحیحمسلمکتابالفضائلبابفضائلعلی رضی اللہ عنہ ۔ مصیبت پیش نہ آئے۔۱؎ مقام تبوک جب لشکر اسلام چشمہ تبوک پر سرحد شام میں پہنچ گیا تو وہاں قیام کیا‘ ہرقل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیغمبر برحق سمجھتا تھا‘ اس نے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے کی خبر سنی تو وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گیا‘ عیسائی لشکر اور غسانی بادشاہ‘ سب لشکر اسلام کی خبر سن کر ادھر ادھر چلے گئے اور میدان خالی چھوڑ گئے‘ تبوک مدینہ سے چودہ پندرہ منزل کی مسافت پر تھا‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیس روز کے قریب قیام کیا‘ اس عرصہ میں ایلہ کا حاکم یجینہ بن رئوبہ اظہار اطاعت کے لیے حاضر خدمت ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر اس سے صلح کر لی‘ اس نے جزیہ کی رقم اسی وقت ادا کر دی‘ پھر مقام جربا کے لوگ آئے انہوں نے بھی جزیہ ادا کرنے کا اقرار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو صلح نامہ لکھ دیا‘ اس کے بعد مقام اذرح کے باشندے حاضر خدمت ہوئے انہوں نے بھی جزیہ کی ادائیگی کے اقرار پر صلح نامہ حاصل کیا۔ تبوک کے قریب دومۃ الجندل کا علاقہ تھا‘ وہاں کا حاکم اکیدر بن عبدالملک بنو کندہ کے