تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلافت علوی کے اہم واقعات بیعت خلافت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں بیعت عام ہوئی‘ شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ کے بعد مدینہ منورہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ہی کا زور تھا‘ انہوں نے اول اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا‘ بلوائیوں میں زیادہ تعداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب مائل تھی‘ اہل مدینہ کی بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کثرت آراء تھی‘ لوگ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ تو مجھ کو خلیفہ انتخاب کرتے ہو لیکن تم لوگوں کے انتخاب کرنے سے کیا ہوتا ہے جب تک کہ اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ تسلیم نہ کریں‘ یہ سن کر لوگ اصحاب بدر کی طرف گئے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کو جمع کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے‘ سب سے پہلے مالک اشتر نے بیعت کی اس کے بعد اور لوگوں نے ہاتھ بڑھائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کی نیت بھی معلوم ہونی چاہیے‘ چنانچہ مالک اشتر طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانب اور حکیم بن جبلہ زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے‘ اور دونوں حضرات کو زبردستی پکڑ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ آپ میں سے جو شخص خلافت کا خواہش مند ہو‘ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں اور ان دونوں نے انکار کیا‘ پھر ان دونوں سے کہا گیا کہ اگر تم خود خلیفہ بننا نہیں چاہتے ہو تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرو‘ یہ دونوں کچھ سوچنے لگے تو مالک اشتر نے تلوار کھینچ کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابھی آپ کا قصہ پاک کر دیا جائے گا‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ حالات دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں اسی شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حکم دیں اور حدود شرعی جاری کریں‘ (یعنی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیں) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان باتوں کا اقرار کیا‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا‘ جو کٹا ہوا تھا‘ (جنگ احد میں ان کا ہاتھ زخموں کی کثرت سے بیکار ہو گیا تھا) بعض لوگوں نے اس مجلس میں سب سے پہلے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے کٹے ہوئے ہاتھ کا بیعت کے لیے بڑہتے ہوئے دیکھ کر بدفالی سمجھی۔ اس کے بعد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور انہوں نے بھی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ والی شرطیں پیش کر کے بیعت کی‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بھی بیعت کے لیے کہا گیا‘ انہوں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور کہا کہ جب سب لوگ بیعت کر لیں گے اس کے بعد میں بیعت کروں گا‘ اور اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ میری طرف سے کسی قسم کا اندیشہ نہ کرو‘ ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرح بیعت میں تامل کیا‘ ان سے لوگوں نے ضامن طلب کیا‘ مالک اشتر نے تلوار نکال کر کہا