تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جاتی ہے وہ قیامت کے دن اس اونٹنی پر سوار ہو کر اٹھے گا‘ یہ عقیدہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ حشر و نشر اور یوم جزاء کے قائل تھے۔۱؎ ستارہ پرستی عرب جاہلیت میں ستارہ پرستی بھی خوب رائج تھی‘ مؤرخین کے پاس اس بات کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ عرب‘ مصر ‘ یونان‘ ایران ان چاروں ملکوں میں کون سا ایک ملک ستارہ پرستی کا استاد اور باقی تینوں اس کے شاگرد ہیں۔ بہرحال اس بات کا ثبوت دشوار ہے کہ عرب میں ستارہ پرستی باہر سے آئی قبیلہ حمیر سورج کو‘ کنانہ چاند کو‘ تمیم دہران کو ‘ لخم اور جذام مشتری کو‘ طے سہیل کو‘ قیس‘ شعریٰ العبور کو‘ اسدعطارد کو پوجتے تھے‘ اکثر قبیلوں کے بت ستاروں کے نام سے موسوم تھے‘ پتھروں کے بت اور مشہور ستارے مشرک طور پر قبائل میں پوجے جاتے تھے‘ ستاروں کے طلوع و غروب پر بڑے بڑے کاموں کا انحصار رکھتے تھے‘ کھلے میدانوں اور ریگستانوں میں بسر کرنے والے لوگوں کی توجہ کا ستاروں اور سیاروں کی طرف خصوصیت سے منعطف رہنا اور ان ستاروں میں سے بعض کو معبود ٹھہرا لینا کوئی ۱؎ اس سے مشرکین عرب کے توحید پرست ہونے یا یوم جزاء کے قائل ہونے کی دلیل لینا عبث ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی حد تک اللہ تعالیٰ اور یوم جزاء کے قائل تو تھے لیکن حقیقی معنوں میں اور صحیح تقاضوں کے مطابق وہ ان امور کے قائل و عامل نہیں تھے۔ تعجب کی بات بھی نہ تھی‘ قرآن کریم کی سورہ نوح سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوع علیہ السلام کے زمانہ میں بھی عراق عرب میں یغوث‘ یعوق‘ ود‘ نسر‘ سواع وغیرہ کی پرستش ہوتی تھی جو سب ستاروں کے نام ہیں‘ اس سے معلوم ہوا کہ ستارہ پرستی ملک عرب میں قدیم الایام سے رائج تھی‘ عرب کے ستارہ پرستوں میں چاند کے پرستار سب سے زیادہ تھے اور چاند سب سے محبوب معبود سمجھا جاتا تھا۔ کہانت عرب میں کاہن لوگ بڑی کثرت سے ہوتے تھے‘ کاہن وہ کہلاتا تھا جو اسرار کے جاننے اور غیب کی خبروں پر اطلاع رکھنے کا دعویٰ کرے‘ جو گذشتہ حالات کی خبر دے اس کو کاہن اور جو آئندہ حالات کی خبر دے اس کو عراف کہتے تھے‘ غیب دانی کا دعویٰ کرنے والے مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی‘ ۱؎ عرب کے کاہنوں میں افعی ‘ جزیمہ‘ ابرش‘ شق‘ سطیح وغیرہ مشہور کاہن تھے‘ غیب دانوں کی ایک قسم ناظر کہلاتی تھی جو آئینہ‘ یا پانی سے لبریز طشت پر نظر ڈالتے اور غیب کی باتیں بتاتے‘ یا حیوانات کی ہڈیوں اور جگر وغیرہ اعضاء کو دیکھ کر حکم لگاتے تھے‘ انہیں میں طارقین حصیٰ (سنگریزہ پھنکنے والے) اور گٹھلیاں پھینکنے والے بھی تھے‘ یہ سب کاہنوں کی ایک قسم میں شمار ہوتے تھے‘ مگر ان کا مرتبہ عراف اور کاہن سے کم سمجھا جاتا تھا‘ ان سے بھی کم رتبہ تعویذ گنڈے والے تھے۔ فال تفائول اور تشائوم یعنی نیک فالی اور بدفالی کے بھی بہت قائل تھے‘ کوے کو بہت منحوس اور موجب فراق سمجھتے تھے‘ عربی زبان میں چونکہ کوے کو غراب کہتے ہیں اس لیے مسافرت کو غربت اور مسافر کو غریب کہنے لگے یعنی کوے کے اثر سے جدائی اور مسافرت میں مبتلا ہوتا ہے۔ الو کو بھی بہت منحوس جانتے تھے‘ ان کے نزدیک الو کے