تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زاد عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے سیدنا مغیرہ آئے‘ اور عندالتذکرہ انہوں نے اپنی پہلی رائے کے خلاف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کو عمال عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے معزول کرنے میں بہت عجلت سے کام لینا چاہیے‘ جب مغیرہ رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کل آپ کو نصحیت کی تھی اور آج دھوکہ دیا ہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کی رائے کیا ہے‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مناسب تو یہ تھا کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت آپ مکہ میں چلے جاتے‘ لیکن اب مناسب یہی ہے کہ عمال عثمانی رضی اللہ عنہ کو بحال رکھیں یہاں تک کہ آپ کی خلافت کو استقلال و استحکام حاصل ہو جائے‘ اور اگر آپ نے عمال عثمانی کے تبدیل و معزول کرنے میں جلدی کی تو بنی امیہ لوگوں کو دھوکہ دیں گے کہ ہم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص طلب کرتے ہیں جیسا کہ اہل مدینہ بھی کہہ رہے ہیں‘ اسی طرح لوگ ان کے شریک ہو جائیں گے اور آپ کی خلافت کا شیرازہ درہم برہم اور کم زور ہو جائے گا۔ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف تلوار کے ذریعہ سیدھا کروں گا‘ کوئی رعایت روانہ رکھوں گا‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ایک بہادر شخص ضرور ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’الحرب خدعتہ‘‘۱؎ اگر آپ میرے کہنے پر عمل کریں تو میں آپ کو ایسی تدبیر بتائوں کہ بنی امیہ سوچتے ہی رہ جائیں اور ان سے کچھ بن نہ پڑے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ میں تو ۱؎ ’’ـجنگ ایک چال اور دھوکہ ہے۔‘‘ صحیحبخاریکتابالجھادحدیث۳۰۲۹و۳۰۳۰ تمہاری سی خصلتیں ہیں‘ نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تم اپنا مال و اسباب لے کر ینبوع چلے جائو‘ اور وہاں دروازہ بند کر کے بیٹھ جائو‘ عرب لوگ خوب سرگرداں و پریشان ہوں گے‘ لیکن آپ کے سوا کسی کو لائق امارت نہ پائیں گے‘ اگر تم ان لوگوں یعنی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھو گے تو لوگ تم پر خون عثمان کا الزام لگائیں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہاری بات پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتا‘ بلکہ تم کو میری بات پر عمل کرنا چاہیے‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بے شک میرے لیے یہی مناسب ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل کروں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو بجائے معاویہ رضی اللہ عنہ کے شام کا والی بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک جدی بھائی ہے اور مجھ کو آپ کے ساتھ تعلق قرابت ہے‘ وہ مجھ کو شام کے ملک میں داخل ہوتے ہی قتل کر ڈالے گا‘ یا قید کر دے گا مناسب یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی جائے اور کسی طرح بیعت لے لی جائے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے انکار فرما دیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے کو بھی رد کر