تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باصرار باز رکھنا چاہا‘ لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو پسند نہ فرمایا‘ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے اہل کوفہ اور اہل عراق کو دیکھ رہے تھے‘ دوسری طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انتظام ملکی اور نظام حکومت کی مضبوطی بھی ان کے پیش نظر تھی‘ لہذا صلح کے ارادے پر قائم رہے۔ صلح نامہ جب عبداللہ بن عامر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مہری و دستخطی کاغذ لے کر آئے اور تمام پیش کردہ شرائط کا تذکرہ کیا تو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس شرط کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد میں خلیفہ بنایا جائوں‘ کیونکہ کہ اگر مجھ کو خلافت کی خواہش ہوتی تو میں اسی وقت کیوں اس کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا‘ اس کے بعد اپنے کاتب کو بلایا‘ اور صلح نامہ لکھنے کا حکم دیا‘ جو اس طرح لکھا گیا۔ یہ صلح نامہ حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان لکھا جاتا ہے‘ دونوں مندرجہ ذیل باتوں پر متفق اور رضا مند ہیں۔ امر خلافت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمان مصلحت وقت کے مطابق جس کو چاہیں گے خلیفہ بنائیں گے‘ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور زبان سے سب اہل اسلام محفوظ و مامون رہیں گے اور معاویہ رضی اللہ عنہ سب کے ساتھ نیک سلوک کریں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلقین اور ان کے طرفداروں سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی تعرض نہ کریں گے‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلقین کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی ضرر نہ پہنچائیں گے اور یہ دونوں بھائی اور ان کے متعلقین جس شہر اور جس آبادی میں چاہیں گے سکونت اختیار کریں گے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے عاملوں یا گماشتوں کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ ان کو اپنا محکوم سمجھ کر اپنے کسی ذاتی حکم کی تعمیل کے لیے مجبور کریں‘ صوبہ اہواز کا خراج حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو امیر معاویہ پہنچاتے رہیں گے‘ کوفہ کے بیت المال میں جس قدر روپیہ اب موجود ہے‘ وہ سب امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت سمجھا جائے گا‘ وہ اپنے اختیار سے اس پر جس طرح چاہیں گے تصرف کریں گے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کو انعام و عطیہ میں دوسروں پر مقدم رکھیں گے۔ اس عہد نامہ پر عبداللہ بن الحارث بن نوفل اور عمروبن ابی سلمہ وغیرہ کئی اکابر کے دستخط بطور گواہ اور ضامن کے ہوئے‘ جب یہ صلح نامہ مرتب ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس مقام انبار میں پہنچا‘ تو وہ بہت خوش ہوئے‘ وہاں سے محاصرہ اٹھا کر اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو آزاد چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بھی اسی روز شام کو معہ اپنے ہمرائیوں کے کوفہ میں پہنچ گئے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں پہنچ کر امام حسن رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ سے بیعت لی‘ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا اور مسجد میں نہ آئے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس بھی ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط ثبت کر کے بھیج دیا اور کہلا بھجوایا کہ جو کچھ تمہاری شرطیں ہوں اس پر