تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلم کو توجہ الی اللہ اور خلوت گزینی کا شوق بڑھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک روشنی اور چمک سی نظر آیا کرتی تھی‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس روشنی کو دیکھ کر مسرور ہوا کرتے تھے‘ اس روشنی میں کوئی صورت یا آواز نہیں ہوتی تھی۔ عرب کی مشرکانہ مراسم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمیشہ نفرت تھی۔ ایک دفعہ مکہ کے بعض مشرکوں نے کسی جلسہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کچھ کھانا رکھا جو بتوں کے چڑھاوے کا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کھانا زید بن عمرو بن نفیل کی طرف سرکا دیا‘ انہوں نے بھی وہ کھانا نہیں کھایا‘ اور ان مشرکوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے‘ ۱؎یہ وہی زید بن عمرو بن نفیل ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے جو سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خلوت اور تنہائی کی ساعات میں قدرت الہیہ پر غور و فکر کیا کرتے اور تحمید و تقدیس الٰہی میں اکثر مصروف رہتے‘ شرک اور مشرکانہ کاموں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کلی محفوظ و مجتنب رہے‘ جوں جوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر چالیس کے قریب ہوئی گئی تنہائی اور خلوت نشینی بڑھتی گئی‘ اکثر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ستو اور پانی اپنے ہمراہ لے کر غار حرا میں چلے جاتے اور کئی دن تک وہاں مصروف عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہتے‘ جب ستو اور پانی ختم ہو جاتا تو گھر سے آ کر یہی سامان اور لے جاتے اور پھر جا کر عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاتے‘ ۲؎غار حرا کوہ حرا (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں) میں ایک غار تھا مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر منیٰ کو جاتے ہوئے بائیں سمت واقع ہے‘ اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا‘ اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سچے خواب نظر آتے تھے‘ جو صبح صادق کی روشنی کی طرح نمایاں طور پر پورے ہوتے تھے‘ اور جو کچھ صبح کو ہونے والے اور پیش آنے والے واقعات ہوتے تھے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رات میں نظر آ جاتے تھے۔ سات برس کا زمانہ اسی شوق عبادت اور توجہ الی اللہ میں گذرا مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمہ تن عبادت الہی اور غار حرا کی خلوت نشینی میں ہی مصروف رہے اور انہی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا۔۳؎ ۱؎ صحیحبخاریکتابمناقبالانصارحدیث۳۸۲۶۔ ۲؎ صحیحبخاریکتابالوحیحدیث۳۔صحیحمسلمکتابالایمانباببدءالوحی۔ ۳؎ ایضاً طلوع شمس اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی آفتاب ہدایت و رسالت طلوع ہوتا ہے‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب وہ روحانی قوتیں جو اللہ تعالیٰ تعالے نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فطرت میں ودیعت کی تھیں عبادت و ریاضت اور اس خلوت سے نشوونما پا کر تحمل وحی اور برداشت منصب نبوت کے قابل ہو گئیں تو ایک روز غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے فرشتہ نمودار ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مخاطب ہو کر کہا:۔ ’’اقراء‘‘ (پڑھ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا ماانابقاری(میں تو پڑھنا