تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کر کے مشرکین کے علمبردار طلحہ کو قتل کیا اور پھر دو دستی تلوار چلاتے اور مشرکین کی صفوف کو درہم برہم کرتے ہوئے بڑھے چلے جاتے تھے‘ حبشی غلام وحشی نے آپ کو بڑھتے ہوئے دیکھا اور ایک پتھر کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ گیا‘ جب آپ رضی اللہ عنہ کفار کو مارتے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ گئے تو اس نے موقع پا کر اپنا حربہ پھینک کر مارا اور نیزہ ایک پہلو سے دوسرے پہلو کے پار نکل گیا‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۴؎ اور وحشی نے جا کر ہندہ بنت عتبہ کو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے شہید کر دینے ۱؎ یہ واقدی کی روایت ہے اور واقدی کذاب مشہور ہے۔ (دیکھئے کتب اسماء الرجال!) ۲؎ اس کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے‘ سیرت ابن ہشام ص ۳۷۰۔ ۳؎ سیرت ابن ہشام ص ۳۷۲۔ ۴؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۷۲۔سیرت ابن ہشام ص ۳۷۲‘ ۳۷۳۔ کی خبر سنائی۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کر کے کفار کو اپنے سامنے سے ہٹا دیا اور ابوسفیان تک پہنچ گئے‘ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر ابوسفیان پروار کرنا ہی چاہتے تھے کہ شداد بن اسودلیثی نے پیچھے سے آ کر ان پر وار کیا اور وہ شہید ہو گئے‘ سیدنا نضربن انس رضی اللہ عنہ اور سعد بن الربیع نے بھی بڑی بڑی چپقلش مردانہ دکھائی ‘ قریش کے بارہ علمبردار یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ ان کے علمبرداروں میں سے جب ایک قتل ہوتا اور علم گرتا تو دوسرا آ کر اٹھا لیتا تھا‘ اسی طرح جب آخری علمبردار صواب قتل ہوا تو پھر کسی کو علم کے اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا اور وہ جھنڈا اسی طرح زمین پر پڑا رہا‘ مسلمانوں کے صف شکن حملوں اور جوانمردانہ شمشیر زنی کے مقابلہ میں کفار کے تین ہزار بہادروں کے پائوں اکھڑ گئے‘ دوپہر کے قریب کفار پسپا ہونے شروع ہوئے اول تو وہ الٹے پائوں لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے رہے‘ پھر پشت پھیر کر فرار ہونے لگے‘ یہاں تک کہ وہ اپنی حد سے بھی نکل گئے اور مسلمانوں نے قریش کی عورتوں کو جو پیچھے دف بجا بجا کر اشعار گا رہی اور اپنے مردوں کو لڑنے کی ترغیب دلا رہی تھیں‘ دیکھا کہ وہ اپنا تمام سازو سامان چھوڑ چھاڑ کر بھاگ رہی اور بھگوڑوں کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں۔۱؎ ہند بن عتبہ بھی جو عورتوں کی جرنیل تھی بدحواسی کے ساتھ بھاگی اور اپنا تمام سامان میدان میں چھوڑ گئی۔ پانسہ پلٹ گیا غرض مشرکوں کی شکست اور مسلمانوں کی فتح میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا تھا‘ کفار جب مسلمانوں کے مقابلہ سے بھاگے ہیں تو دوپہر کا وقت تھا‘ کفار کو بھاگتے ہوئے اور ان کے جھنڈے کو دیر تک زمین پر پڑے ہوئے دیکھ کر تیر اندازوں کو جو گھاٹی کی حفاظت کے لیے تعینات کئے گئے تھے اس بات کا شوق اور جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی کفار کے تعاقب میں شریک ہو جائیں‘ ان کے سردار سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو ہر چند روکا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم نہ ہو ہم کو اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہیے‘ ۲؎ مگر فتح کی خوشی اور کفار کے تعاقب کے شوق نے ان کو کچھ نہ سننے دیا اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا‘ خالد بن ولید جو لشکر قریش کے دستہ میمنہ کے افسر تھے اس گھاٹی کی اہمیت کو خوب تاڑ گئے تھے‘ انہوں اپنے سو سواروں کا دستہ لے کر اور چکر کاٹ کر پہاڑی کے پیچھے ہو کر اسی گھاٹی