تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں اور تم حکمراں قوم ہو‘ یہاں بھی وہی خلیفہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی بجز حکمرانی کے اور کچھ نہیں‘ پھر ایک جگہ فرمایا کہ یَآدَاؤُدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ یہاں ایک شخص یعنی سیدنا دائود علیہ السلام کی حکومت و سلطنت کا ذکر ہے‘ یہاں بھی خلیفہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی بادشاہ یا شہنشاہ۱؎ کے سوا اور کچھ نہیں‘ سیدنا دائود علیہ السلام کی اسی حکومت و سلطنت کے متعلق دوسری جگہ فرمایا و وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ (ہم نے ان کی سلطنت کو مضبوط کیا) پھر خاص مسلمانوں اور بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی نسبت فرمایا {وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ} (النور : ۲۴/۵۵) یعنی جس طرح زمیں میں ہم نے دوسرے لوگوں کو حکمراں بنایا تھا اسی طرح تم میں سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطبین میں سے) جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے ان کو زمین میں حکمرانی عطا کی جائے گی۔ استحقاق خلافت قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ زمین پر حکومت و سلطنت یعنی خلافت کا عطا کرنا یا حکومت و سلطنت کا کسی سے چھین لینا خدائے تعالیٰ ہی کا خاص کام ہے‘ اگرچہ ہر ایک کام کا فاعل حقیقی خدائے تعالیٰ ہی ہے‘ لیکن اس نے خلافت و سلطنت کے عطا کرنے کا فاعل ہر جگہ اپنے آپ ہی کو ظاہر فرمایا ہے اور اس فعل کو استعارۃ بھی کسی دوسرے کی طرف نسبت نہیں کیا‘ایک جگہ صاف طور پر فرمایا: {قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآء} (آل عمران : ۳/۲۶) اب دیکھنے اور غور کرنے کے قابل بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کن لوگوں کو خلافت یا حکومت عطا فرماتا ہے‘ یعنی جو لوگ خلافت حاصل کرتے ہیں ان کے امتیازی نشانات کیا ہیں آدم علیہ السلام یا بنی آدم ۱؎ شہنشاہ صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ حدیث میں منع کیا گیا ہے کہ کسی بادشاہ وغیرہ کو شہنشاہ کہا جائے۔ کو جو زمینی مخلوقات پر حکمرانی حاصل ہے اس کا سبب قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم ہے {وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا} (البقرۃ : ۲/۳۱) فرشتوں نے سفک دم اور فساد کو خلافت الٰہیہ کے منافی سمجھا اور خدائے تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرنے کو خلافت کا استحقاق اور علامت قرار دیا۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نوع انسان کو محض وسعت علم ہی کے سبب تمام دوسری مخلوقات پر حکمرانی و فرمانروائی حاصل ہے اگر انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت علم حاصل نہ ہو تو ہوا کا ایک جھونکا‘ پانی کی ایک لہر‘ درخت کا ایک پتہ اور جمادات کا ایک ذرہ انسان کو عاجز کر سکتا اور اس کو فنا کے گھاٹ اتار سکتا ہے‘ مگر علم کی بدولت شیر‘ ہاتھی‘ دریا‘ پہاڑ‘ ہوا‘ آگ ‘ بجلی وغیرہ سب انسان کی خدمت گذاری و فرمانبرداری اور راحت رسانی پر مستعد اور غلاموں کی طرح فرماں بردار نظر آتے ہیں قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب طالوت کی بادشاہت پر لوگوں نے اعتراض کیا تو خدائے تعالے نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت معترضین کو جواب دیا کہ {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ وَ اللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ}