تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور رسوائی ہو گی۔ آپ مساوات و جمہوریت کے حقیقت مفہوم سے واقف‘ اور اس کو قائم کرنا چاہتے تھے‘ نہ یہ کہ آپ آج کل جیسی یورپی جمہوریت کے دل دادہ تھے جو تعلیم اسلامی اور اصول اسلامی کے خلاف ہے‘ ایک مرتبہ سر منبر ایک عورت نے آپ کو ٹوک دیا اور آپ کے قول کو غلط بتایا‘ عورت نے چونکہ صحیح بات کہی تھی لہذا آپ نے مجمع عام میں فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا‘ آج کل جبہ پوش نفس پرور مولویوں کی طرح اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لیے تاویلیں اور دوراز حقیقت باتیں بنانے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ فتوحات پر ایک نظر فتوحات فاروقی کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل بیان کیا جاتا ہے‘ یہ فتوحات ایران اور روم کی شہنشاہیوں کے مقابلے میں عرب کی ایک مفلوک الحال اور چھوٹی سے قوم کو حاصل ہوئیں۔ روم کی سلطنت جزیرہ نما بلقان‘ ایشیائے کوچک ‘ شام‘ فلسطین‘ مصر‘ سوڈان پر چھائی ہوتی تھی‘ ایران کی سلطنت چند سال پیشتر اس قدر طاقتور تھی کہ رومی سلطنت کو شکست دے کر شام کے ملک میں فاتحانہ بڑھتی ہوئی ساحل بحر اور مصر تک پہنچ گئی تھی‘ ایرانیوں کے قبضہ میں رومیوں سے کم ملک نہ تھے‘ یہ دونوں سلطنتیں مشرقی و مغربی دنیا پر اپنے اثر‘ شہرت اور تمدن کے اعتبار سے مستولی تھیں‘ اور کوئی تیسری طاقت ان کے مقابلے پر آنے والی دنیا میں پائی نہیں جاتی تھی‘ مسلمانوں کی اس حیرت انگیز کامیابی اور خارق عادت فتوحات کے اسباب بیان کرتے ہوئے عیسائی اور غیر مسلم مؤرخ کہتے ہیں کہ رومی اور ایرانی دونوں سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں‘ اس لیے مسلمانوں کو بہ آسانی فتوحات کا موقع مل گیا‘ لیکن یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں یا مسلمانوں کی طاقت ان کمزور شدہ سلطنتوں کے مقابلے میں کیا تھی‘ جب مسلمانوں اور ان دونوں سلطنتوں کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے تو رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان کوئی مخالفت اور لڑائی نہیں تھی‘ نہ رومی ایرانیوں کے دشمن تھے‘ نہ ایرانی رومیوں کے خون کے پیاسے تھے‘ دونوں سلطنتوں کو الگ الگ اپنی اپنی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر دینے کی سہولت حاصل تھی جبکہ مسلمانوں کو بہ یک وقت رومیوں اور ایرانیوں دونوں طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا‘ یہ دونوں سلطنتیں مہذب و متمدن سلطنتیں سمجھی جاتی تھیں اور بہت پرانی حکومتیں تھیں‘ ان کے پاس سامان حرب بافراط اور انتظامات مکمل‘ فوج باقاعدہ مرتب منتخب فوجی سردار اور انتظامی اہل کار شائستہ و تجربہ کار موجود‘ جبکہ مسلمان اور عرب قوم ان چیزوں سے تہی دست تھی۔ پھر یوں بھی طاقتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی بھی اور رومی بھی ایک ایک میدان میں دو دو لاکھ سے زیادہ مسلح اور آہن پوش لشکر لا سکے‘ درانحالیکہ اس دو لاکھ لشکر کی پشت پر کسی عقب کے مقام پر اسی قدر تعداد کا دوسرا مکمل لشکر بھی موجود ہوتا تھا اور اس دو لاکھ کے لشکر کو لڑتے ہوئے اطمینان ہوتا تھا کہ ہماری امداد کے لیے ہمارے پیچھے ہمارے بھائیوں کی اتنی ہی بڑی تعداد اور موجود ہے‘ لیکن مسلمانوں کی بڑی سے بڑی فوج جو کسی میدان میں جمع ہو سکی ہے‘ وہ تیس چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھی اور یہ تعداد ہمیشہ اپنے دو دو لاکھ حریفوں کو میدان سے بھگانے اور فتح پانے میں