تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
طرح بصرے سے بھی ایک جمعیت روانہ ہوئی‘ ان خبروں کے پہنچنے اور ان امدادی جمعیتوں کے روانہ ہونے میں ضرور کچھ نہ کچھ تامل واقع ہوا‘ کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی سیدنا عثمان غنی کی شہادت سے پہلے مدینہ میں نہ پہنچ سکا‘ سب نے راستے ہی میں واقعہ شہادت کا حال سنا اور راستے ہی سے اپنے اپنے صوبوں کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ تیس دن تک حالت محاصرہ میں سیدنا عثمان غنی نمازوں کے لیے مسجد میں آتے رہے‘ اس کے بعد بلوائیوں نے ان کا گھر سے نکلنا اور گھر میں پانی کا جانا بند کر دیا‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر چند کہا کہ تم عینی شاہد پیش کرو کہ میں نے یہ خط لکھا ہے جس کو تم نے بہانہ بنایا ہے یا مجھ سے قسم لے لو‘ مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں ہے‘ بلوائیوں نے کسی کی کوئی معقول بات پھر سننی پسند نہ کی‘ ایک عام افراتفری اور ہلچل کا زمانہ تھا‘ سیدنا عثمان غنی پر بلوائیوں نے پانی کا جانا بند کیا تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی‘ پھر ایک ہمسایہ کے ذریعہ پوشیدہ طور پر پانی گھر میں پہنچتا رہا۔ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی امامت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خود مسجد میں نہ آ سکے تو انہوں نے نمازوں کی امامت کے لیے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا‘ لیکن چند روز کے بعد بلوائیوں کے سردار غافقی بن حرب عکی نے خود نمازوں کی امامت شروع کر دی‘ مصر میں جس طرح محمد بن ابی بکر سیدنا عثمان کے خلاف کوشش فرماتے تھے‘ اسی طرح محمد بن حذیفہ بھی مخالفت عثمانی میں مصروف تھے‘ جب مصر سے عبدالرحمن بن عدیس کی سرکردگی میں قافلہ روانہ ہوا تو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ میں آئے تھے‘ لیکن محمد بن حذیفہ وہیں مصر میں رہ گئے تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کی خبر جب مصر میں پہنچی تو عبداللہ بن سعد وہاں سے خود ایک جمعیت لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے‘ جب مقام رملہ میں پہنچے تو ان کے پاس خبر پہنچی کہ محمد بن حذیفہ نے مصر پر قبضہ کر لیا ہے‘ یہ سن کر وہ واپس آ گئے‘ فلسطین ہی میں تھے کہ سیدنا عثمانی غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچ گئی۔ محاصرہ کی حالت چالیس روز تک ممتد ہوئی۔ جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی‘ اور یہ معلوم کیا کہ اب بلوائی سیدنا عثمان کے مکان کا دروازہ گرا کر اندر داخل ہونا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر مسلح موجود رہو اور بلوائیوں کو مکان کے اندر داخل ہونے سے روکو‘ اسی طرح سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے اپنے صاحبزادوں کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بھیج دیا‘ ان صاحبزادوں نے دروازے پر پہنچ کر بلوائیوں کو روکا اور ان کو اس لیے مجبوراً رکنا پڑا کہ اگر ان میں کسی کو کوئی صدمہ پہنچ جاتا‘ تو تمام بنی ہاشم کے مخالف اور درپے مقابلہ ہونے کا اندیشہ تھا۔ ادھر بلوائیوں کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عاملوں نے محاصرہ کی خبریں سن کر ضرور مدینہ کی طرف فوجیں روانہ کی ہوں گی اگر وہ فوجیں پہنچ گئیں تو پھر مقصد برآری دشوار ہو گی‘ لہذا انہوں نے فوجی تدابیر شروع کر دیں‘ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک متصلہ مکان میں داخل ہو کر اور