تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جانب چلا جاتا تھا۔ شہر میں داخل ہو کر شتر سوار نے دیکھا کہ ہر شخص جو سامنے آتا ہے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین کہہ کر سلام علیک کرتا ہے‘ تب اس کو معلوم ہوا کہ جو شخص میرے ساتھ پیدل چل رہا ہے وہ خلیفہ وقت ہے‘ یہ معلوم کر کے وہ ڈرا اور اونٹ سے اترنا چاہا لیکن فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم حالات سناتے جائو اور بدستور اپنے اونٹ پر سوار چلے چلو‘ چنانچہ اسی طرح گھر تک آئے‘ مسجد نبوی میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور فتح کی خوش خبری سب کو سنائی‘ ایک نہایت پر اثر تقریر فرمائی جس کا خاتمہ اس طرح تھا۔ ’’بھائیو! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کواپنا غلام بنانا چاہوں‘ میں تو خود اللہ تعالیٰ کا غلام ہوں‘ البتہ خلافت کا کام میرے سپرد ہے‘ اگر میں یہ کام اس طرح انجام دوں کہ تم آرام سے اپنے گھروں میں اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرو تو یہ میری خوش نصیبی ہے اور اگر خدانخواستہ میری یہ خواہش ہو کہ تم لوگ میرے دروازے پر حاضری دیا کرو تو یہ میری بدبختی ہو گی‘ میں تم کو تعلیم دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں لیکن صرف قول سے نہیں بلکہ عمل سے بھی‘‘ فتح بابل وکوثیٰ ایرانیوں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں قیام کیا اور کئی نامور سرداروں نے مفرور لوگوں کو فراہم کر کے مقابلہ کی تیاریاں کیں‘ سیدنا سعد نے فتح کے بعد دو مہینے تک قادسیہ میں قیام فرمایا اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم کا انتظار کیا‘ دربار خلافت سے احکام کے وصول ہونے پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اہل و عیال کو تو قادسیہ ہی میں چھوڑا اور خود لشکر اسلامی کے ساتھ مدائن کی جانب روانہ ہوئے‘ اپنی روانگی سے پہلے سیدنا زہرہ بن حیوۃ کو مقدمۃ الجیش بنا کر آگے روانہ کیا‘ زہرہ دشمنوں کو مارتے ہٹاتے محکوم بناتے ہوئے بڑھے چلے جاتے تھے‘ یہاں تک کہ بابل کے قریب پہنچے‘ یہاں سیدنا سعد بھی اپنی پوری فوج لے کر آپہنچے۔ ایرانی سرداروں نے سیدنا سعد کے آنے کی خبر سنی تو وہ بابل میں قیام نہ کر سکے‘ کچھ مدائن کی طرف چل دئے‘ کچھ ہواز اور نہاوند کی جانب چلے گئے اور راستے میں تمام پلوں کو توڑتے اور دریائے دجلہ اور اس کی نہروں اور ندیوں کو ناقابل عبور بناتے ہوئے گئے‘ ایرانیوں کے فرار و منتشر ہو جانے کی خبر سن کر سیدنا سعد نے سیدنا زہرہ کو حسب دستور آگے روانہ کیا اور خود بھی ان کے پیچھے بڑے لشکر کولے کر متحرک ہوئے‘ سیدنا زہرہ جب مقام کوثیٰ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں ایرانیوں کا مشہور سردار شہریار مقابلہ پر آمادہ ہے۔ کوثی وہ مقام ہے جہاں نمرود نے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو قید کیا تھا‘ قید خانہ کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی‘ شہریار سیدنا زہرہ کے قریب پہنچنے کا حال سن کر کوثی سے باہر نکلا‘ اورمسلمانوں کے مقابل صف آرا ہو کر میدان میں آگے بڑھ کر للکارا کہ تمہارے سارے لشکر میں جو سب سے زیادہ بہادر جنگ جو ہو وہ میرے مقابلے پر آئے‘ یہ سن کر سیدنا زہرہ نے جواب دیا کہ میں خود تیرے مقابلہ پر آنے کو تیار تھا‘ لیکن اب تیری یہ لن ترانی سن کر تیرے مقابلے پر اس لشکر میں سے کسی ادنیٰ ترین غلام کو بھیجتا ہوں کہ وہ تیرے غرور کا سر نیچا کر دے۔ یہ کہہ کر آپ نے نائل بن جعشم اعرج کو جو قبیلہ بنو تمیم کا غلام تھا اشارہ کیا‘ سیدنا نائل