تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پاس خبر بھیجی گئی کہ حسب وعدہ اونٹنیاں لے کر کوہ ثور کے دامن میں آ جائو‘ اس جگہ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ‘ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا ‘ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی رازداری کی چاہے داد نہ دو ۔۔۔۔ کیونکہ ان سب کے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نہایت قوی اور قریبی تعلقات تھے‘ لیکن عبداللہ بن اریقط مسلمان بھی نہ تھا محض اجیر تھا‘ اس شخص کی راز داری‘ ضبط و تحمل اور پاس عہد کا تو ذکر کرنے سے اہل عرب کی حمیت اور قوی شرافت کی بے اختیار داد دینی پڑتی ہے‘ عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں اور ایک اپنا اونٹ لے کر غار ثور کے نزدیک دامن ثور میں رات کے وقت (یہ ماہ ربیع الاول کی چاندنی رات تھی) آ پہنچا‘ حضرات اسماء رضی اللہ عنھا بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا بھی سفر کر لئے ستو اور کھانا وغیرہ لے کر آ گئیں۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم غار ثور سے نکلے‘ ایک اونٹنی پر آنحضور سوار ہوئے‘ اس اونٹنی کا نام القصواء تھا‘ دوسری پر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے خادم عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ دونوں سوار ہوئے‘ عبداللہ بن اریقط جو دلیل راہ تھا اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور یہ چار آدمیوں کا مختصر قافلہ مدینہ کی طرف عام راستے سے بچتا ہوا روانہ ہوا‘ ۲؎کیونکہ ابھی تک تعاقب کا اندیشہ باقی تھا۔ ۱؎ صحیحبخاریکتابفضائلاصحابالنبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث۳۶۵۳۔صحیحمسلم۔کتابالفضائل۔بابمنفضائلابیبکر رضی اللہ عنہ ۔ ۲؎ صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۵۔ روانگی کے قبل ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ پیش آیا کہ سیدنا اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا جو گھر سے ستو کا تھیلا لائیں‘ اس کے لٹکانے کا تسمہ بھول آئیں‘ جب یہ تھیلا اونٹ کے کجاوہ سے باندھ کر لٹکانا چاہا تو کوئی تسمہ یا ڈوری اس وقت موجود نہ تھی‘ سیدنا اسماء رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنا نطاق (کمر سے باندھنے کی ڈوری یا کمر بند) نکال کر آدھا تو اپنی کمر سے باندھا اور آدھا کاٹ کر اس سے ستو کا تھیلا لٹکایا‘ اس بروقت اور برمحل تدبیر کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہت خوش ہوئے اور ان کو ذات النطاقین کہا‘ چنانچہ بعد میں سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا ذات النطاقین کے لقب سے مشہور ہوئیں‘ ۱؎یہی سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا بنت ابی بکر ہیں جن کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے۔ ایک یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنا تمام زرنقد جو پانچ چھ ہزار درہم تھے لے کر روانہ ہوئے‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ جو ابھی تک کفر کی حالت میں تھے اور نابینا تھے گھر میں آئے‘ اور اپنی دونوں پوتیوں سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خود بھی چلا گیا اور سارا مال و زر بھی لے گیا‘ سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا بولیں دادا جان وہ ہمارے لئے بہت روپیہ چھوڑ گئے‘ یہ کہہ کر انہوں نے ایک کپڑے میں بہت سے سنگریزے لپیٹ کر اس جگہ لے جا رکھے جہاں روپوں کی تھیلی رکھی رہتی تھی اور دادا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئیں۔ انہوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیا اور سمجھا کہ روپیہ موجود ہے‘ اور پوتیوں سے کہا کہ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔۲؎ سفر ہجرت