تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حال سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور قسم کھائی کہ جس قدر مسلمان مرتدین کے ہاتھ سے شہید ہوئے ہیں جب تک اتنے ہی مرتدین کو قتل نہ کر لوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا۔ غرض آپ رضی اللہ عنہ اسی عزم و تہیہ میں تھے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ معہ مال غنیمت مدینے میں داخل ہوئے‘ آپ رضی اللہ عنہ نے اسامہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو تو مدینہ میں چھوڑا کہ وہ اور ان کا لشکر جو سفر سے تھکا ہوا آیا ہے مدینہ میں آرام کریں اور خود مدینہ کے مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت لے کر ذی خشب اور ذی قصہ کی طرف خروج کیا‘ ربذہ کے مقام ابرق میں عبس و ذبیان و بنوبکر و ثعلبہ بن سعد وغیرہ قبائل برسر مقابلہ ہوئے نہایت سخت لڑائی ہوئی‘ انجام کار مرتدین شکست یاب ہو کر فرار ہوئے‘ مقام ابرق میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے قیام کیا اور بنو ذبیان کے مقامات مسلمانوں کو دے دئیے‘ ان کی چراگاہیں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے وقف فرما دیں‘ وہاں سے آپ رضی اللہ عنہ مقام ذی القصہ تک تشریف لے گئے اور دشمنوں کی قرار واقعی گوشمالی کی‘ پھر مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے‘ اب لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ نے بھی سستا لیا تھا۔ ملک عرب میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں سے مقابلہ و مقاتلہ درپیش تھا ان کی دو قسمیں تھیں ‘ اول وہ لوگ جو نجد و یمن و حضر موت وغیرہ کی طرف مسیلمہ و طلیحہ و سجاح وغیرہ جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ متفق ہو گئے تھے‘ ان لوگوں سے لڑنے یا قتال کرنے میں کسی صحابی کو اختلاف نہ تھا‘ دوسرے وہ قبائل جو زکو ۃ کو ادا کرنے سے انکار کرتے تھے‘ ان سے قتال کرنے کو بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نامناسب خیال کرتے تھے‘ لیکن سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اظہار رائے کے بعد سب صحابی رضی اللہ عنہ ان کی رائے سے متفق ہو گئے تھے‘ ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ فرق ضرور تھا‘ لیکن مسلمانوں نے جب کہ دونوں کے مقابلہ و مقاتلہ کو یکساں ضروری قرار دیا تو پھر ان دونوں میں کوئی فرق و امتیاز باقی نہ رہا‘ اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دونوں گروہ دنیا طلبی اور مادیت کے ایک ہی سیلاب میں بہہ گئے تھے‘ جن کو صدیقی تدبیر و روحانیت نے غرق ہونے سے بچایا اور اس طوفان ہلاکت آفرین سے نجات دلا کر ملک عرب کا بیڑا ساحل فوز و فلاح تک صحیح سلامت پہنچایا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فرمان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں آتے ہی اول ایک فرمان لکھا اور اس کی متعدد نقلیں کرا کر قاصدوں کے ذریعہ ہر مرتد قبیلہ کی طرف ایک ایک فرمان بھیجا کہ اول جا کر تمام قبیلے کے لوگوں کو ایک مجمع میں بلا کریہ فرمان سب کو سنا دیا جائے‘ اس فرمان یا منشور کا مضمون یہ تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے‘ ہر اس شخص کو جس کے پاس یہ فرمان پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم ہو یا اسلام سے پھر گیا ہو‘ فانی احمد الیکم اللہ الذی لا الہ الا ھووحدہ لاشریک لہ واشھد ان) محمدا عبدہ و رسولہ و اومن بما جاء واکفرمن ابی ذلک و اجاھدہ۔ اما بعد‘ خدائے تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سچا نبی بنا کر بھیجا‘ جو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں اور ہدایت کے سراج منیر ہیں‘ جس شخص نے دعوت اسلام قبول کی