تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہنچی‘ انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو آئندہ اس قسم کی حرکات سے منع کیا‘ اور کسی قدر اظہار ناراضگی بھی کیا‘ اس سال سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی حج بیت اللہ ادا فرمایا اور اپنی جگہ مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے کا عامل بنایا‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ میں واپس آ کر وہاں کے چند چھوٹے چھوٹے مقامات پر جو باقی رہ گئے تھے قبضہ کیا۔ سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ ماہ ربیع الاول ۱۳ ھ تک علاقہ حیرہ میں رہے جبکہ آخر محرم ۱۲ ھ میں وہ اس علاقہ میں داخل ہوئے تھے‘ اس قلیل مدت میں ان کو قدم قدم پر دشمنوں کا مقابلہ پیش آیا‘ اور بیسیوں خوں ریز و عظیم لڑائیاں لڑنی پڑیں‘ ہر ایک لڑائی میں ان کی فوج کم اور دشمنوں کی فوج کئی گنا ہوتی تھی‘ ہر ایک لڑائی میں انہیں کو فتح نصیب ہوئی کسی موقعہ پر بھی ان کو شکست و ہزیمت حاصل نہیں ہوئی‘ ایرانیوں کی مفرور اور دشمن قوم کے دل پر ان کے قوت بازو اور عزم و استقلال کی بدولت عربوں کی دھاک بیٹھ گئی‘ اس قلیل مدت میں انہوں نے جس قدر وسیع ملک اور مختلف زبردست قبائل کو تسخیر کیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں بہ آسانی دستیاب نہ ہو سکے گی‘ اس معاملہ میں ہم مجبور ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بے نظیر شجاعت اور قابلیت سپہ سالاری پر درود و سلام بھیجیں۔ لیکن ان تمام خالدی کارناموں کی ایک روح ہے‘ اس روح کو بھی ہمیں تلاش کر لینا چاہیے‘ وہ روح انتخاب صدیقی‘ تربیت صدیقی اور ہدایات صدیقی ہیں‘ مدینہ منورہ اور لشکر اسلام کے درمیان برابر سلسلہ خط و کتابت ہمیشہ جاری رہتا‘ اور ہر ایک واقعہ کی خبر جلد از جلد خلیفتہ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جاتی تھی‘ اسی طرح معمولی معمولی باتوں کے متعلق خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہدایات پہنچتی رہتی تھیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ملک شام میں ایرانیوں کی جانب سے کسی قدر اطمینان ہو چکا تھا‘ اور امید نہ تھی کہ اب جلد وہ مدینہ منورہ میں فوج کشی کے خواب دیکھیں گے‘ جس وقت عرب کے ہر ایک حصہ میں فتنہ ارتداد فرو ہو گیا اور ایرانی خطرہ کی اہمیت بھی کسی عجلت کی متقاضی نہ رہی‘ تو اب سب سے مقدم اور سب سے زیادہ اہم ملک شام کا انتظام اور اس طرف سے رومی و غسانی خطرہ کی روک تھام تھی‘ شرجیل بن عمروغسانی بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایلچی کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد جنگ موتہ ہوئی‘ پھر رومیوں اور غسانیوں نے ملکر مدینہ منورہ پر فوج کشی کی تیاریاں کیں‘ جس کا حال سن کر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فوج لے کر تبوک تک تشریف لے گئے‘مگر اس وقت تک عیسائی پورے طورپر اتنے بڑے عربی و اسلامی لشکر کے مقابلہ کی جرات نہ کر سکے‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سرحد شام پر رعب ڈال کر واپس تشریف لے آئے‘ اس کے بعد پھر خبر پہنچی کہ سرحد شام پر فوجی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا‘ جو بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سرحد شام کی طرف گئے‘ اور جو مقابل ہوا اس کو شکست دے کر جلدی سے واپس چلے آئے‘ کیوں کہ فتنہ ارتداد کا اندرون ملک میں خوب زور و شور تھا۔ فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب گیارہ لشکر تیار کر کے روانہ کئے تو ان میں سے ایک لشکر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دے کر