تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی تھیں‘ بالکل یہی حالت عراق عرب کی تھی کہ اس میں بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں عربوں کی تھیں جن میں سے اکثر ایرانی شہنشاہی کے ماتحت اور بعض ایرانی دربار سے گورنر مقرر ہو کر آتے اور حکومت کرتے تھے۔ ۱؎ اور الکفر ملۃ واحدۃ ’’تمام کفار ایک (متحدہ) ملت ہیں۔‘‘ کی عملی صورت سامنے آ گئی۔ مسلمانوں کی حکمت عملی سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جب لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف روانہ کیا تھا تو وہ ایرانیوں سے غافل نہ تھے‘ انہوں نے اس خطرناک حالت اور ان تشویش افزا ایام میں جب کہ خود مدینہ منورہ کی حفاظت اور ملک عرب کے صوبوں میں فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لیے فوجوں کی بے حد ضرورت تھی‘ ایک چھوٹا سا دستہ مذکورہ بالا گیارہ لشکروں کی روانگی سے پہلے مثٰنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ شیبانی کی سرداری میں عراق کی جانب روانہ کر دیا تھا اور مثنیٰ کو حکم دیا تھا کہ عراق میں پہنچ کر کسی جگہ بھی جم کر لڑائی کی تمہید نہ ڈالیں بلکہ بطریق چپاول چھاپے مارتے اورعراق کے رئیسوں کو ڈراتے رہیں‘اس سے مدعا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ جب تک ملک عرب کا فتنہ ارتداد فرد ہو اس وقت تک ایرانیوں کو ملک عرب پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہو سکے اور وہ مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے پورے طور پر واقف نہ ہو سکیں‘ یہی مقصد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ رومی لوگوں کو عرب کی جانب حملہ آور ہونے کی یکایک جرات نہ ہو سکے۔ جب نجد و یمامہ کے حالات قابو میں آگئے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو جو نجد میں مقیم تھے لکھا کہ ان مسلمانوں کو جو مرتد نہیں ہوئے اور اسلام پر بدستور قائم رہے اپنے ہمراہ لے کر بالائی عراق پر حملہ آور ہوں اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو یمامہ میں مقیم تھے لکھا کہ اپنا لشکر لیے ہوئے زیریں عراق کی طرف متوجہ ہوں‘ راستہ میں جو قبائل یا رئوسا آتے وہ بطیب خاطر مسلمان ہوتے یا اسلامی سیادت میں داخل ہوتے گئے‘ حکم صدیقی رضی اللہ عنہ کی تصریح کے موافق مقام ابلہ میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دونوں آ کر مل گئے۔ جنگ ذات السلاسل سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مقام ابلہ میں تمام اسلامی لشکر کی موجودات لی توکل اٹھارہ ہزار آدمی تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے عراق کا وہ ایرانی صوبہ تھا‘ جس کا نام حفیر تھا‘ اور دربان ایران سے اس صوبہ کا گورنر ہرمز نامی ایک نہایت دلیر و جنگ جو سردار مقرر تھا‘ اس ہرمز کی دھاک تمام عرب و عراق اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی‘ کیونکہ وہ جنگی بیڑہ لے کر ساحل ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا کرتا تھا‘ سیدنا خالد بن رضی اللہ عنہ ولید نے ہرمز کے نام ایک خط اتمام حجت کے لیے لکھا اور اسلام کی طرف دعوت دی‘ ہرمز نے اس خط کو پہنچتے ہی فوراً دربار ایران کو اطلاع دی اور خود فوجیں جمع کر کے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کو بڑھا۔ ادھر سے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی سرداری عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کو دی دوسرا حصہ قعقاع رضی اللہ عنہ