تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حرام ہیں‘ یعنی مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے‘ امانتیں ان کے مالکوں کو سپرد کرنی چاہیں‘ دوسروں پر ظلم نہ کرو‘ تاکہ تم پر بھی ظلم نہ کیا جائے‘ سود حرام ہے‘ شیطان مایوس ہو گیا کہ اس کی پرستش اس سر زمین میں کی جائے‘ لیکن یہ ہو گا کہ چھوٹے چھوٹے امور میں اس کی اطاعت کی جائے گی‘ لہذا تم شیطان کی اطاعت سے بچو‘ اے لوگو! عورتوں کا تم پر حق ہے‘ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو‘ میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں‘ ایک اللہ کی کتاب دوسرے اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت‘ جب تک تم کتاب و سنت پر عمل کرو گے گمراہ نہ ہو گے‘ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کے مال میں بلا اجازت تصرف کرے‘ تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے پوچھا کہ’’بتائو میں نے احکام الہیٰ تم کو پہنچا دئیے؟ سب نے مل کر جواب دیا‘ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احکام الٰہی ہم تک پہنچا دئیے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۳۴۹۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۵۷۶۔ کہ اے اللہ تعالیٰ تو گواہ رہنا۔۱؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خطبہ میں اس طرح کلمات فرمائے کہ جیسے کسی سے کوئی و داع ہوتا یا کسی کو وداع کرتا ہے‘ اس لیے اس حج کا نام حجۃ الوداع مشہور ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سال خطبہ میں احکام اسلامی کی خصوصی تبلیغ فرمائی‘ اس حج کو حجۃ البلاغ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں‘ اس خطبہ کے ختم ہونے کے بعد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ماں نے دودھ کا پیالہ بھیجا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پی لیا۔اس حج میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے‘ بقول بعض ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس روز یہ بھی فرمایا کہ اس سے پہلے پیغمبروں نے جو کچھ کہا سب سے اچھا کلام ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرُ‘‘۲؎ ہے۔عرفہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عرفہ ہی میں تھے آیت {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} ۳؎نازل ہوئی‘ اس آیت کو سن کر بہت سے اصحاب رضی اللہ عنہ خوش ہوئے کہ دین اسلام کی آج تکمیل ہو گئی مگر بعض اصحاب رضی اللہ عنہ مثل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جو زیادہ نکتہ رس طبیعت رکھتے تھے آب دیدہ ہوئے‘ کہ اس آیت سے فراق کی بو آتی ہے کیونکہ جب دین کی تکمیل ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے رہنے کی ضرورت نہ رہی‘ ارکان حج سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دل دہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ جو یمن کی طرف سے آ کر شریک حج ہوئے تھے‘ ان کے ہمراہیوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو کچھ شکایات بیان کیں جو اہل یمن کی بعض غلط فہمیوں کے سبب پیدا ہوئی تھیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ شکایت سن کر غدیر خم کے مقام پر تقریر فرمائی اور