تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرما چکے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نہ لڑیں گے‘ میدان جنگ سے جدا ہو گئے‘ اتفاقاً سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور بڑھ کر ان کو لڑائی کے لیے ٹوکا‘ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے نہ لڑوں گا لیکن سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ان کو لڑائی کا بانی سمجھ کر سخت ناراض تھے‘ انہوں نے حملہ کیا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ان کے ہر ایک وار کو روکتے اور اپنے آپ کو بچاتے رہے‘ اور خود ان پر کوئی حملہ نہیں کیا‘ یہاں تک کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تھک کر رہ گئے‘ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر چل دئیے‘ اہل بصرہ سے احنف بن قیس اپنے قبیلے کی ایک بڑی جمعیت لیے ہوئے دونوں لشکروں سے الگ بالکل غیر جانب دار حالت میں ایک طرف خیمہ زن تھے‘ انہوں نے پہلے ہی سے دونوں طرف کے سرداروں کو مطلع کر دیا تھا کہ ہم دونوں میں سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں گے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے نکل کر چلے تو احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی لشکر گاہ کے قریب سے ہو کر گذرے‘ احنف بن قیس کے لشکر سے ایک شخص عمرو بن الجرموز سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہو لیا‘ اور قریب پہنچ کر ان کے ساتھ ساتھ چلنے اور کوئی مسئلہ ان سے دریافت کرنے لگا‘ جس سے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو اس کی نسبت کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا‘ لیکن اس کی طبیعت میں کھوٹ تھا اور وہ ارادہ فاسد سے ان کے ہمراہ ہوا تھا‘ وادی السباع میں پہنچ کر نماز کا وقت آیا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے‘ بحالت نماز جب کہ سجدہ میں تھے‘ عمروبن الجرموز نے ان پر وار کیا‘ وہاں سے وہ سیدھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اول کسی شخص نے آ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے‘ آپ نے فرمایا اس کو اجازت دے دو‘ مگر ساتھ ہی اس کو جہنم کی بھی بشارت دے دو‘ جب وہ سامنے آیا اور آپ نے اس کے ساتھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار دیکھی تو آپ کے آنسو نکل پڑے‘ اور کہا کہ اے ظالم یہ وہ تلوار ہے جس نے عرصہ دراز تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کی ہے عمرو بن الجرموز پر ان الفاظ کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ان کے سامنے ہی چند گستاخانہ الفاظ کہہ کر اور تلوار خود ہی اپنے پیٹ میں بھونک کر مر گیا‘ اور اس طرح واصل بہ جہنم ہو گیا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی علیحدگی لڑائی کے شروع ہی میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے جدا ہو گئے تھے‘ قبائل کے افسر اور چھوٹے چھوٹے سردار اپنی اپنی جمعیتوں کو لیے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے تھے‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ خود اس کوشش میں مصروف تھیں کہ کسی طرح لڑائی رکے اور صلح کی صورت پیدا ہو‘ لہذا اس طرف یعنی اہل جمل کی طرف فوج کو لڑانے والا کوئی ایک سردار نہ تھا‘ لڑنے والوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہم لڑائی میں جو کوشش کر رہے ہیں یہ سیدنا ام المومنین کا منشاء اصلی ہے یا نہیں‘ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور ان کا تمام لشکر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ خیال رکھتے تھے کہ انہوں نے صلح کی گفتگو کر کے ہم کو دہوکا دینا چاہا اور پھر ظالمانہ طور پر اچانک ہم پر حملہ کر دیا‘ اس حالت میں وہ اپنے لشکر کو لڑنے اور مدافعت کرنے سے روک بھی نہیں سکتی