تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(البقرۃ : ۲/۲۴۷) یعنی طالوت کو خدائے تعالیٰ نے بادشاہت کے لیے منتخب فرما لیا اور علم اور جسم میں وسعت عطا کی اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور حکومت عطا فرماتا ہے اور اللہ ہی صاحب وسعت اور صاحب علم ہے۔ سیدنا دائود علیہ السلام کو حکومت و خلافت عطا فرما کر خدائے تعالیٰ نے حکم دیا کہ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی پھر ایک جگہ فرمایا : {وَ لَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ ٭ ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْن} (یونس : ۱۰/۱۳۔۱۴) قرآن کریم سے اسی قسم کی شاید سینکڑوں آیات تلاش کی جا سکتی ہیں‘ کہ خلیفہ سے مراد حکمران اور خلافت سے مراد سلطنت ہے اور سلطنت و حکمرانی کے لیے علم‘ عدل‘ اصلاح‘ قوت اور رفاہ خلائق کی شرطیں لازمی ہیں جن کی ہمیشہ بادشاہوں اور خلیفوں کو ضرورت رہی ہے اور بغیر ان شرائط و صفات کے کوئی بادشاہ یا کوئی سلطان اپنی بادشاہت اور سلطنت کو قائم نہیں رکھ سکتا‘ یہ تمام صفات حسنہ پیغمبروں اور رسولوں کی تعلیمات سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور ہر ایک پیغمبر علیہ السلام بادشاہ بھی ضرور ہو‘ خلافت کے لیے اگر محض عبادت اور خدائے تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا بجالانا ہی ضروری ہوتا تو صرف پیغمبر علیہ السلام یا فرشتے ہی دنیا میں حکمراں نظر آتے اور ان کے سوا کسی کو سلطنت و حکمرانی میسر نہ آتی مگر مشاہدہ اس کی تردید کر رہا ہے‘ پس نتیجہ اس تمام تحقیق کا یہ نکلا کہ خلافت درحقیقت حکمرانی و سلطنت ہے‘ نہ کچھ اور‘ خلیفہ یا بادشاہ خدائے تعالیٰ خود جس کو چاہتا ہے بناتا ہے اور جب کوئی حکمراں قوم من حیث القوم ظلم و فساد پر اتر آتی ہے تو اس سے خدائے تعالیٰ حکومت یا خلافت چھین لیتا ہے اور جس دوسری قوم کو چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ اسلامی خلافت نوع انسان کی تمام ترقیات اور انسان کی تمام علمی و اخلاقی فضیلتیں درحقیقت نتیجہ ہیں تعلیمات انبیاء علیہ السلام کا ‘ نبی دنیا میں کبھی بحیثیت معلم تشریف لائے ہیں‘ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور کبھی بحیثیت بادشاہ تشریف لائے ہیں مثلاً سیدنا دائود علیہ السلام ‘ بادشاہ نبی کی شریعت بمقابلہ معلم نبی کی شریعت کے زیادہ کامل اور زیادہ عظیم الشان ہوا کرتی ہے‘ معلم نبی اپنی امت کے ہر فرد کی زندگی کے لیے ایک نمونہ پیش کرتا ہے‘ لیکن بادشاہ نبی علاوہ نمونہ پیش کرنے کے اس نمونہ پر لوگوں کو عامل بناجاتا ہے یعنی اپنی لائی ہوئی شریعت کو نافذالفرمان قانون کا مرتبہ دے جاتا ہے۔ معلم نبی جب اپنا کام ختم کر کے اس دنیا سے جاتا ہے تو امر نبوت میں کوئی اس کا جانشیں نہیں ہوتا‘ نہ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ نبی خدائے تعالیٰ سے حکم پا کر بندوں کو خبر پہنچاتا ہے یعنی اس پر وحی نازل ہوتی ہے‘ اب اگر اس کام میں کوئی اس کا جانشیں ہو تو اس پر وحی نازل ہونی چاہیے‘ اور جو کام نبی کرتا تھا وہی وہ بھی کرے‘ اندریں صورت وہ جانشیں بجائے خود نبی کہلائے گا اور اس میں اور اس کے پیش رو میں کوئی فرق نہ ہو گا‘ پہلا نبی دنیا سے اسی وقت رخصت ہوتا ہے جب نبوت کے کام کو ختم کر جاتا ہے‘ پس اس کے لیے جانشیں یعنی دوسرے نبی کی مطلق ضرورت نہیں ہوتی‘ یہی وجہ ہے کہ جو نبی صرف معلم نبی تھے ان کا کوئی جانشیں نہیں سنا گیا‘ لیکن بادشاہ نبی چونکہ نبی