تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نیک برتائو کی تعلیم دی بدکاری دروغ گوئی اور یتیموں کا مال کھانے سے منع کیا‘ قتل و غارت سے باز کیا اور عبادت الہی کا حکم دیا‘ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور اس کی فرمانبردای کی اس لیے ہماری قوم ہم سے ناراض ہو گئی‘ ہم کو انواع و اقسام کی اذیتیں پہنچائیں یہاں تک کہ ہم مجبور ہو کر اپنے وطن سے نکل آئے اور آپ کے ملک میں پناہ گزیں ہوئے‘ ہم کو یقین ہے کہ آپ کے ملک میں ہم کو ستایا نہ جائے گا۔‘‘ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ تمہارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ تعالیٰ کا جو کلام نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ سنائو‘ چنانچہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی تلاوت شروع کی قرآن کریم کی آیات سن کر نجاشی اور تمام درباریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے‘ جب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سورہ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرما چکے تو نجاشی نے کہا اس کلام میں وہی رنگ ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی توریت میں ہے یہ دونوں ایک ہی سے کلام معلوم ہوتے ہیں۔ قریش کے ایلچیوں نے کہا کہ یہ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بھی مخالف ہیں‘ اس بات کے کہنے سے ان کا یہ مدعا تھا کہ نجاشی شاہ حبش جو عیسائی ہے مسلمانوں سے ناراض ہو جائے گا‘ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فوراً جواب دیا کہ ہرگز نہیں بلکہ ھوعبداللہورسولہوکلمتہالقاھاالیمریموروحمنہ۱؎نجاشی نے کہا تمہارا یہ عقیدہ بالکل درست ہے‘ انجیل کا بھی یہی مفہوم ہے‘ نجاشی نے قریش کے ایلچیوں کو ناکام واپس کر دیا اور کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے سپرد نہ کروں گا‘ ساتھ ہی نجاشی نے قریش کے تمام تحفے اور ہدایا واپس کر دئیے جس سے ان کی اور بھی تذلیل ہوئی‘ ۲؎یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال کا ہے‘ قریش کو جب نجاشی کے دربار میں بھی ناکامی ہوئی تو ان کی دشمنی مسلمانوں کے ساتھ اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا: قریش مکہ عداوت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں دیوانے ہو رہے تھے‘ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوہ صفا پر یا اس کے دامن میں بیٹھے تھے‘ کہ ابوجہل اس طرف کو آ نکلا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر اول تو بہت سخت و سست اور ناپسندیدہ الفاظ کہے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اس کی بیہودہ سرائی کا کوئی جواب نہ دیا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہوئے اور خون بہنے لگا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش اپنے گھر چلے آئے‘ ابوجہل صحن کعبہ میں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے آ بیٹھا۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا تھے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت محبت تھی مگروہ ابھی تک شرک پر قائم اور مشرکوں کے شریک حال تھے ان کی عادت تھی کہ تیر کمان لے کر صبح جنگل کی طرف نکل جاتے‘ دن بھر شکار مارتے اور شکار کی تلاش میں مصروف رہتے‘ شام کو واپس آ کر اول خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر اپنے گھر جاتے‘ وہ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو اول راستے ہی میں ابوجہل کی لونڈی ملی‘ اس نے ابوجہل کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینا اور پتھر مارنا ۱؎ ’’وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘ اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا‘