تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں جانتا) پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا ’’اقراء‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر جواب دیا ‘ کہ ماانابقاریاس نے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کرزور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا اقراء آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر وہی جواب دیا ’’ما انا بقاری‘‘ فرشتہ نے پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زور سے بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا:۔ {اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ٭ خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٭ اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ٭ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٭ عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ} ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے ہر شے کو پیدا کیا‘ اور انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا‘ پڑھ اور تیرا رب بڑا بزرگ ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ (العلق : ۹۶ ۱ تا۵) یہ کہہ کر فرشتہ تو غائب ہو گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے خوف زدہ حالت میں گھر تشریف لائے اور خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ زملونیزملونی(مجھے کمل اوڑھائو) سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کمل اوڑھا دیا اور وہ بھی گھبرائیں کہ یہ کیا بات ہے‘ جب تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام کیفیت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کو سنائی اور کہا کہ ’’لقد خشیت علی نفسی‘‘ (مجھے تو اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔) ۱؎ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھاکے تاریخی الفاظ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ (کلا ابشر فواللہ لا یحزنک اللہ ابداً انک ۱؎ صحیحبخاریکتابالوحیحدیث۳۔صحیحمسلمکتابالایمانباببدءالوحی۔ لتصل الرحم و تصدق الحدیث و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق) (نہیں نہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوش ہونا چاہیئے‘ واللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جن کے پاس اپنے لیے کافی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود ہیں جو لوگوں میں نہیں پائی جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مہمان نواز ہیں اور حق باتوں اور نیک کاموں کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے مددگار بن جاتے ہیں) اس تسلی و تشفی دینے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو اب بوڑھے ہو گئے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ورقہ بن نوفل کے سامنے تمام کیفیت بیان کی‘ ورقہ نے سن کر کہا کہ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا‘ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب قوم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نکال دے گی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا (اومخرجونی) ’’کیا قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ بن نوفل