تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو لے کر ان پر چڑھائی کی‘ بنو نضیر اپنے قلعہ میں محصور ہو کر بیٹھ گئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محاصرہ کر لیا‘ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ مدینہ کے منافقین اور عبداللہ بن ابی نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم تمہارے شریک ہیں اگر تم قلعہ سے نکل کر باہر میدان میں لڑوگے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کریں گے‘ اگر تم جلاوطن ہونا قبول کرو گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ کو چھوڑ کر جلاوطن ہو جائیں گے۔۱؎ بنونضیر کی جلاوطنی منافقین کی اس پشت گری اور ہمت افزائی سے بنو نضیر کے دم خم بھی بڑھ گئے تھے‘ مگر آخر پندرہ دن کے محاصرہ اور مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں نے عبداللہ بن ابی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ہماری جان بخشی کی جائے تو ہم جلاوطن ہونے پر آمادہ ہیں ۔۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ سوائے ہتھیاروں کے اور اپنا تمام مال و اسباب جو اونٹوں پر بار ہو سکتا ہے لے جائو اور یہاں سے نکل جائو۔ چنانچہ وہ ہتھیاروں کے سوا جس قدر مال اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے تھے لے کر چلے گئے‘ جاتے ہوئے انہوں نے اپنے گھروں کو خود ہی ڈھا کر مسمار کر دیا اور گھر کے مٹکے وغیرہ برتن سب توڑ پھوڑ گئے۔ یہاں سے روانہ ہو کر وہ کچھ تو خیبر میں چلے گئے اور کچھ ملک شام میں جا کر آباد ہو گئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بقیہ مال و جائداد اور ہتھیار ماہرین میں تقسیم فرما دئیے‘ انصار میں سے صرف سیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دو شخصوں کو اس مال غنیمت میں سے حصہ ملا‘ کیونکہ یہ دونوں بھی بہت غریب اور افلاس کی حالت میں تھے‘ یہودیوں میں سے یامین بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سعید بن وہب رضی اللہ عنہ دو شخص مسلمان ہو گئے‘ اس لیے ان کے مال و اسباب و اسلحہ جنگ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اس غزوہ کا نام غزوہ بنو نضیر مشہور ہوا‘ یہ ماہ ربیح الاول ۴ ھ یعنی جنگ احد سے پورے چھ مہینے ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۰۴ تا ۴۰۶۔ بعد کا واقعہ ہے۔ سورہ حشر اسی غزوہ میں نازل ہوئی‘ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے۔۱؎ غزوہ ذات الرقاع اس عرصہ میں بنو محارب اور بنو ثعلبہ (قبیلہ غطفان کی شاخیں ہیں) کے متعلق متواتر خبریں پہنچیں کہ وہ شرارت پر آمادہ اور حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۲؎ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما کر صرف چار سو صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے گئے‘ وہ لوگ مقام نخل میں جمع تھے‘ اسلامی لشکر جب ان کے قریب پہنچا تو وہ سب منتشر ہو کر بھاگ گئے‘ کوئی معرکہ نہیں ہوا اس غزوہ کا نام غزوہ ذات الرقاع ہے جو جمادی الاولی ۴ ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ ذات الرقاع اس کا نام اس لیے رکھا گیا کہ پہاڑی اور پتھریلی زمین میں سفر کرنے سے اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پائوں زخمی ہو گئے تھے‘ جس کی وجہ سے غازیوں نے پائوں میں کپڑے لپیٹ لیے تھے‘ بعض کا خیال ہے کہ ذات الرقاع