تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رائے کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پسند فرمایا اور وہ گریہ و زاری جو روزانہ قمیص کو دیکھ دیکھ کر لوگ کیا کرتے تھے موقوف ہوئی۔ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بھی سمجھایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ درحقیقت واقعہ جمل کے بعد اپنی فوجی طاقت کو بہت کچھ کمزور بنا چکے ہیں‘ کیونکہ جنگ جمل میں اہل بصرہ کے آٹھ نو ہزار آدمی مارے گئے‘ جن میں بڑے بڑے نامی سردار تھے‘ اب جو اہل بصرہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں‘ وہ اہل کوفہ کے ساتھ مل کر لڑائی میں پوری جانفشانی نہیں دکھائیں گے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سارے کے سارے سپاہی یک دل اور آپس میں پورے طور پر متفق نہیں ہیں‘ یہ اندازہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا غلط نہ تھا اور اس حقیقت سے سبائی فرقہ بھی نا آشنا نہ تھا۔ محاربات صفین کا دیباچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں تشریف لا کر ملک شام پر چڑھائی کی تیاری شروع کی‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر بصرہ سے روانہ ہو گئے‘ اس خبر کے سنتے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی کوفہ میں ابومسعود انصاری کو اپنا قائم مقام بنا کر مقام نخیلہ کی طرف تشریف لے گئے اور ترتیب لشکر میں مصروف ہو گئے‘ یہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی اہل بصرہ کا لشکر لیے ہوئے آ پہنچے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہاں زیاد بن نصر حارثی کو آٹھ ہزار فوج دے کر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا‘ اس کے بعد شریح بن ہانی کو چار ہزار کی جمعیت دے کر زیاد کے پیچھے بھیجا‘ اور خود نخیلہ سے کوچ کر کے مدائن تشریف لائے‘ مدائن میں سعد بن مسعود ثقفی کو عامل مقرر کر کے معقل بن قیس کو تین ہزار لشکر کے ساتھ روانہ کیا‘ اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مدائن سے روانہ ہو کر رقہ کی طرف چلے‘ رقہ کے قریب دریائے فرات کو عبور کیا اور یہاں زیاد‘ شریح‘ معقل وغیرہ تمام سرداروں کا لشکر مجتمع ہو گیا۔ ادھر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لشکر عظیم لیے ہوئے ملک شام کے قصد سے آ رہے ہیں تو انہوں نے ابو الاعور سلمی کو ایک دستہ فوج دے کر بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دریائے فرات کو عبور کرنے کے بعد زیادہ و شریح دونوں سرداروں کو پھر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا‘ زیاد‘ شریح کو حدود شام میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ ابو الاعور السلمی لشکر شام لیے ہوئے آ رہا ہے‘ انہوں نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشتر کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ تم جب زیادہ شریح تک پہنچنا‘ تو تمام لشکر کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر زیاد و شریح کو میمنہ و میسرہ کی سرداری پر متعین کر دینا‘ اور جب تک لشکر شام تم پر حملہ آور نہ ہو اس پر حملہ آور نہ ہونا۔ اشتر نے پہنچ کر تمام لشکر کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر زیاد و شریح کو میمنہ و میسرہ سپرد کیا‘ ادھر ابوالاعور بھی مقابل آ کر خیمہ زن ہوا‘ صبح سے شام تک دونوں لشکر خاموش ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہے‘ لیکن شام کے وقت ابوالاعور نے حملہ کیا‘ تھوڑی دیر لڑ کر فریقین ایک دوسرے سے جدا ہو گئے‘ اگلے دن صبح کو ابوالاعور صف لشکر سے نکل کر میدان میں آیا‘ ادھر سے ہاشم بن عتبہ نے نکل کر مقابلہ کیا‘ عصر کے