تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے نکلے مگر سفیان بن عوف ہاتھ نہ آئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت صرف عراق و ایران تک اسی طرح سیدنا معاویہ نے بسر بن ابی ارطاۃ کو حجاز و یمن کی طرف روانہ کیا‘ اہل مدینہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت اختیار کی‘ اس کے بعد اہل مکہ اور اہل یمن نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یمن کے دارالسلطنت صنعاء سے نکال دیا۔ غرض ۴۰ ھ کے ابتداء میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت یمن‘ حجاز‘ شام‘ فلسطین مصر وغیرہ ممالک پر قائم ہو چکی تھی اور ان مقبوضہ ممالک کی حکومت میں کسی قسم کی کمزوری و اضمحلال کے آثار بھی نہیں پائے جاتے تھے‘ نہ کسی بغاوت اور اندرونی مخالفت کا ان کو اندیشہ تھا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ دونوں شہروں کو غیر جانب دار اور آزاد چھوڑ دیا گیا تھا‘ یعنی ان شہروں میں نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی نہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی‘ اور اس پر دونوں حضرات رضا مند ہو گئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت عراق و ایران پر قائم تھی‘ مگر عراق میں عربی قبائل کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو ان کی حکومت کے ساتھ دلی ہمدردی نہ رکھتے تھے‘ اسی طرح ایران میں بھی سازشوں اور بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا‘ ایران کے مجوسی لوگ اپنی گئی ہوئی سلطنت کے دوبارہ قائم کر لینے کے خواب ابھی تک دیکھ رہے تھے اور کسی موقع کو فوت ہونے نہ دیتے تھے۔ کوفہ‘ اور بصرہ جو دو مرکزی شہر سمجھے جاتے تھے خود ان میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہمدردی تھی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی شجاعت اور بلند ہمتی سے سب کچھ کرنا چاہتے‘ اور اپنی خلافت کو تمام عالم اسلامی کی ایک ہی شنہشاہی قائم کرنے کے خواہش مند تھے‘ لیکن ان کے ساتھیوں کی طرف سے عموماً پست ہمتی اور نافرمانی کا اظہار ہوتا تھا‘ جس کی وجہ سے وہ مجبور تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں عجمی لوگ زیادہ تھے‘ اور امیر معاویہ کی فوج میں عربی لوگوں کی کثرت تھی‘ حجاز و یمن کی حکومت قبضہ میں آ جانے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیثیت و اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی‘ تاہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتی حیثیت و شجاعت اور ان کی بزرگی و عظمت اس قدر بلند پایہ تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی ہمسری کے دعوے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہمیشہ خائف رہتے تھے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بصرہ سے رخصت ہونا انہیں ایام یعنی ۴۰ ھ کے ابتدائی ایام میں ایک اور ناگوار واقعہ پیش آیا‘ یعنی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ کی طرف چلے گئے۔ اس ناگوار واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ بصرہ سے ابوالاسود نے سیدنا عبداللہ بن عباس کی جھوٹی شکایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ لکھ کر بھیجی کہ انہوں نے بیت المال کے مال کو آپ کی اجازت کے بغیر خرچ کر ڈالا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود کو شکریہ کا خط لکھا کہ اس قسم کی اطلاع دینا اور عاملوں کی بے راہ روی