تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ اللہ کی پناہ ایسی خرافات سے۔ سے بھی زیادہ عاشق مزاج ہے۔ ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تو کس قوم سے ہے‘ اس نے جواب دیا میں ایسی قوم میں سے ہوں کہ جب وہ عاشق ہوتے ہیں تو ضرور مرجاتے ہیں‘ اس کلام کو ایک لڑکی سن رہی تھی وہ کہنے لگی عذری و رب الکعبہ (رب کعبہ کی قسم ہے تو ضرور عذری ہے۔) شاعری عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو‘ مرد عورت بچے‘ بوڑھے‘ جوان سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے‘ گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اور فصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے ان کی شاعری عموماً فی البدیہہ ہوتی تھی‘ سوچنے‘ غور کرنے اور مضمون تلاش کرنے کی ان کو ضرورت نہ تھی‘ ان کو اپنی فصاحت اور قادر الکلامی پر اس قدر غرور تھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے سامنے گونگا جانتے تھے‘ مگر قرآن کریم نے نازل ہو کر اہل عرب کے غرور فصاحت و بلاغت کی ایسی کمر توڑی اور ان تمام فصیح و قادر الکلام اہل عرب کو قرآن کریم کے مقابلہ پر ایسا نیچا دیکھنا پڑا کہ رفتہ رفتہ اہل عرب کا غرور فصاحت جاتا رہا اور سب کو کلام الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سالانہ میلوں‘ تقربیوں اور حج کے موقعوں پر جس شخص کا قصیدہ مشاعرہ میں سب سے زیادہ بہتر قرار دیا جاتا تھا وہ فوراً سب سے زیادہ عزت و عظمت کا وارث بن جاتا تھا‘شاعروں کی عزت ان کے نزدیک بہادر سپہ سالاروں اور بادشاہیوں کے مساوی بلکہ ان سے بھی زیادہ ہوتی تھی‘ اور حقیقت یہ ہے کہ قبیلوں کو لڑا دینا‘ قبیلوں کو غیر معمولی بہادر بنا دینا‘ لڑائی کو جاری رکھنا یا اس کو ختم کرا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا‘ بہترین قصائد خانہ کعبہ پر لکھ کر لٹکا دئیے جاتے تھے‘ چنانچہ ایسے سات قصیدے جوسبع معلقات کے نام سے مشہور ہیں امرئا القیس بن حجر کندی‘ زہیر ابن ابی سلمیٰ مزنی‘ لبید بن ربیعہ‘ عمر بن کلثوم‘ عنترہ عبسی وغیرہ کے مصنفہ تھے۔ شکار کا شوق عرب جاہلیت کو شکار کا بھی بہت شوق تھا اس لیے عربی زبان میں شکار کے متعلق بہت زیادہ اصطلاحیں موجود ملتی ہیں‘ جو شکار داہنی طرف سے آ کر بائیں طرف چلا جاتا اس کو سانح اور جو بائیں طرف سے آ کر دائیں طرف کو چلا جاتا اسے بارح کہتے تھے‘ جو شکار سامنے سے آتا اس کا نام ناطح اور جو پیچھے سے آتا اس کا نام قعید تھا‘ شکاری کی کمین گاہ کا نام قرہ اور شیر کے شکار کی غرض سے جو گڑھا کھودا جاتا اس کا نام زبیہ‘ شکار کی طرف دائوں کرتے ہوئے پیٹ کے بل زمین سے چمٹے ہوئے جانے کو تلبد اور شکاری کے محروم واپس آنے کو اخفاق کہتے تھے‘ وہ جس چیز کو شکار کر لیتے اس کا گوشت بلا تکلف کھاتے خواہ وہ حرام ہو یا حلال‘ اسلام نے حرام و حلال کی قیود اور شکار کے لیے پابندیاں قائم کیں۔ لباس و طعام ملک عرب میں نہ ریشم پیدا ہوتا ہے نہ کپاس یہ چیزیں اگر بعض صوبوں میں پیدا ہوتی ہیں تو بہت قلیل مقدار میں اور ملکی ضروریات کے لیے ناکافی‘ یمن میں قدیم الایام سے پارچہ بانی کا رواج ہے‘ عام طور پر اہل عرب کا لباس بہت ہی سادہ رہا ہے‘ گاڑھے کے