تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بولنے سے موت اور ویرانی واقع ہوتی تھی‘ عطسہ (چھینک) کو بھی موجب بدفالی سمجھتے تھے۔۲؎ بعض لوگ ساحر تھے وہ جادو گری کا پیشہ کرتے تھے اور شیطان کو اپنا دوست بنانے کے لیے بڑی بڑی ریاضتوں میں مصروف ہوتے تھے۔ جنگ جوئی ذرا ذرا سی اور بہت ہی معمولی معمولی باتوں پر ان میں جنگ چھڑ جاتی تھی ایک دفعہ جب لڑائی ۱؎ اس کے برعکس اسلام نے یہ تصور دیا کہ غیب دان صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی ذات ہے۔ وہی اس کائنات کے ہر قسم کے غیب کا علم رکھتا ہے۔ ۲؎ مشرکین و بد عقیدہ لوگوں کا ذہن ایسی پراگندہ سوچوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ شروع ہو جاتی تو پھر کئی کئی پشتوں اور صدیوں تک برابر جاری رہتی‘ ان کی لڑائیوں میں کوئی بھی لڑائی ایسی نہیں ملتی جو کسی معقول اور اہم سبب کی بنا پر شروع ہوئی ہو‘ عرب جاہلیت کی لڑائیوں میں سو سوا سو لڑائیاں بہت مشہور ہیں‘ مثلاً بعاث‘ کلاب‘ فترت‘ نخلہ‘ قرن‘ سوبان ‘ حاطب وغیرہ‘ ان لڑائیوں سے کسی قبیلہ یا ملک کو کبھی بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا‘ بلکہ طرفین کو ہمیشہ تباہی و بربادی اور نقصان جان و مال برداشت کرنا پڑا۔ عرب جاہلیت میں ایک یہ رسم بھی تھی کہ جب دشمن پر قابو پا جاتے اور اس کے عیال و اطفال کو قید کر لیتے تو بلا امتیاز اور بلا تکلف سب کو قتل کر دیتے تھے‘ لیکن قیدیوں میں سے کوئی شخص ان کے کھانے میں سے کچھ کھا لیتا تو قتل سے محفوظ ہو جاتا تھا‘ جس کو قید سے آزاد کر دینا چاہتے تو اول اس کے سر کے بال تراش لیتے‘ ان میں مبارزت کی لڑائیوں کا بہت رواج تھا‘ صف بندی کر کے لڑناان میں رائج نہ تھا۔ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی نگہداشت کا ان کو بہت زیادہ خیال تھا‘ شمشیر زنی‘ تیر اندازی شہسواری نیزہ بازی میں جس شخص کو کمال حاصل ہوتا اس کی بڑی عزت و توقیر کی جاتی اور اس کا نام فوراً دور دور تک مشہور ہو جاتا‘ بعض قبائل کو بعض فنون حرب اور اسلحۂ جنگ کے استعمال میں شہرت حاصل تھی‘ خاص خاص تلواروں‘ نیزوں‘ کمانوں‘ گھوڑوں وغیرہ کے خاص خاص نام یعنی اسماء علم تھے اور سارے ملک میں سمجھے اور پہچانے جاتے تھے‘ مثلاً حرث بن ابی شمر غسانی کی تلوار کا نام خذوم تھا‘ عبدالمطلب بن ہاشم کی تلوار کا نام عطشان‘ اور مالک بن زبیر کی تلوار کا نام ذوالنون تھا۔ یہ سب کچھ اس امر کی دلیل ہے کہ عرب کے لوگ جنگ و قتال کے بے حد شائق تھے یہی وجہ ہے کہ گھوڑے اور تلوار کے نام عربی زبان میں ہزاروں تک بتائے جاتے ہیں۔ عشق بازی عرب جاہلیت میں پردے کا مطلق رواج نہ تھا‘ان کی عورتیں آزادانہ مردوں کے سامنے آتی تھیں‘ مشاغل اور ضروریات زندگی کی کمی‘ آزاد مزاجی اور شاعری و مفاخرت نیز ملک کی گرم آب و ہوا نے یہ منحوس مرض بھی ان میں پیدا کر دیا تھا‘ ان میں وہ آدمی کمینہ اور ذلیل سمجھا جاتا تھا جس کو کسی عورت سے کبھی عشق پیدا نہ ہوا ہو‘ ۱؎ عرب کے بعض قبائل اپنی عشق بازی کی وجہ سے مشہور تھے‘ مثلاً بنی عذرہ کے عشق کی یہاں تک شہرت تھی کہ اعشق من بنی عذرۃ کی مثل مشہور ہے‘ یعنی فلاں شخص بنی عذرہ