تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کامیاب ہوئی‘ حالانکہ اس کی پشت پر کوئی زبردست فوجی چھائونی بھی نہ ہوتی تھی‘ پس یہ کہہ کر فارغ ہو جانا کہ ایرانیوں اور رومیوں کی سلطنتیں پہلے کی نسبت کمزور ہو گئی تھیں نہایت ہی احمقانہ بات ہے اور اور اس سے مسلمانوں کی فتح مندی کے اسباب تلاش کرنے کے کام سے ایک متلاشی حقیقت کو فراغت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کو اگر تلاش کرنا ہو تو اس بات پر غور کرو‘ ایرانی اور رومی دونوں شرک میں مبتلا تھے اور عرب ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر توحید پر قائم ہو چکے تھے‘ شرک ہمیشہ انسان کو بزدل اور ایمان ہمیشہ بہادر بنا دیتا ہے‘ بس ایمان و توحید کی بدولت عربوں میں وہ سچی بہادری پیدا ہو چکی تھی ‘ جو ایمان کے لیے شرط لازم ہے اور جو کسی طاقت سے کبھی مغلوب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں کو قرآن کریم اور اسوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ جہاں بانی کے وہ اصول اورگر سکھا دئیے تھے کہ ان کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کی تہذیب اور اصول جہاں داری کسی طرح ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتے تھے‘ مسلمانوں نے جس بستی‘ جس شہر‘ جس ضلع اور جس صوبے کو فتح کیا وہاں کی غیر مسلم آبادی نے مسلمانوں کی آمد اور مسلمانوں کی حکومت کو جنت خیال کیا اور یہ سمجھا کہ اپنے ہم مذہبوں کی حکومت سے آزاد ہونا گویا ہمارے لیے دوزخ سے آزاد ہونا تھا‘ مفتوح اقوام نے اپنے فاتح عربوں کے اخلاق ‘ شفقت علی خلق اللہ‘ عدل‘ رحم‘ سیر چشمی‘ بلند حوصلگی وغیرہ کو دیکھ کر بخوشی اپنے آپ کو ان کے قدموں میں ڈال دیا اور حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنی انسانیت کو ان عرب فاتحین کی بدولت بچا سکی‘ پس رومیوں اور ایرانیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں فتح مند ہو سکتے۔ ایک تیسری بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں میں نہ صرف بہادری اور شجاعت پیدا کر دی تھی بلکہ ان جیسی اتفاق و ایثار اور قربانی کی مثال کسی قوم اور کسی ملک میں ہرگز دستیاب نہ ہو سکے گی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں اسلام کی بدولت پیدا ہو گئی تھی۔ خلافت راشدہ کا نصف اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عہد‘ اسلام کی دینی و مذہبی حکومت یعنی خلافت راشدہ کا نصف اول کہا جا سکتا ہے‘ نصف آخر میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا عہد حکومت ہے‘ خلافت راشدہ کے نصف اول کا حال بیان ہو چکا ہے‘ آئندہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حالات سے خلافت راشدہ کا نصف آخر شروع ہونے والا ہے۔ مذکورہ نصف اول کی خصوصیات میں ایک یہ بات ہے کہ کسی جگہ بھی دین کے مقابلے میں دنیا مقدم نظر نہیں آتی‘ اعلائے کلمۃ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کا واہمہ بھی کسی ذاتی غرض‘ ذاتی منفعت‘ قوم یا قبیلہ کی بے جاحمایت‘ کسی رشتہ داری یا دوستی کے پاس و لحاظ کی طرف نہیں جاتا‘ خالص اسلامی رنگ اور خالص عربی تمدن ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں بیٹھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معرکوں میں شریک ہونے والے حضرات بکثرت موجود تھے‘ وہی سب کی نگاہوں میں واجب التکریم سمجھے جاتے تھے اور ان کا نمونہ