تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں پہنچے۔ ۳۴ ھ کے واقعات کوفہ کی تو وہ حالت تھی جو اوپر مذکور ہوئی‘ ادھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دوسرے عاملوں کے نام بھی فرامین روانہ کر دئیے تھے کہ اس مرتبہ بعد حج سب مدینہ منورہ میں میرے پاس آ کر شریک مشورہ ہوں‘ چنانچہ شام سے سیدنا امیر معاویہ‘ مصر سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح‘ کوفہ سے سعید بن العاص‘ بصرہ سے عبداللہ بن عامر اور بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے صوبوں سے بھی وہاں کے عامل مدینہ میں آ کر جمع ہوئے‘ سیدنا عثمان غنی نے علاوہ ان عمال کے مدینہ منورہ کے صاحب الرائے ۱؎ وہاں مجوسیت کے کافی اثرات ابھی باقی تھے‘ منافقین اور دیگر سازشی گروہ بھی اپنا کام دکھا رہے تھے‘ اس لیے خلیفۃ المسلمین اور ان کے حکام کے خلاف لوگ علانیہ بدزبانی پر اتر آئے۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی موجود تھی جو منافق اور سبائی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرات کو بھی شریک مجلس کیا اور دریافت کیا کہ یہ شورش جو میرے خلاف پھیلی ہے اس کا سبب بتائو اور مجھ کو مفید مشورہ دو کہ میں کیا کروں۔ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں کو جہاد میں مصروف کر دینا بہترین علاج ہے‘ خالی بیٹھے ہوئے اس قسم کے فساد اور فتنے ان کو سوجھتے ہیں‘ جب جہاد میں مصروف ہو جائیں گے تو یہ شورشیں خود بخود فن ہو جائیں گی۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان شریر لوگوں کے سرداروں یعنی شرارت کے اماموں کی بات بات پر معقول گرفت کی جائے اور ان کو منتشر کر دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے پیر و لوگ خود بخود منتشر ہو جائیں گے‘ امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ رائے تو معقول ہے لیکن اس پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم لوگ جو صوبوں کے گورنر ہیں اپنے اپنے صوبوں کو سنبھالیں اور ان مفسدوں سے ہر ایک صوبے کو کلی پاک کر دیں۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ لوگ سب کے سب لالچی اور زبردست ہیں‘ ان کو مال و زر دے کر اپنا بنا لینا چاہیے۔ اسی مجلس میں جب شورش و فساد کے متعلق اصل حالات ایک دوسرے سے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ تمام شورش محض فرضی اور خیالی طور پر برپا کی گئی ہے‘ اصلیت اس کی کچھ بھی نہیں ہے‘ یہ معلوم ہو کر لوگوں کو اور بھی تعجب ہوا‘ بعض حضرات نے یہ مشورہ دیا کہ جو لوگ اس قسم کی شرارتوں اور بغاوتوں میں خصوصی طور پر حصہ لیتے ہیں‘ ان سب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا جائے اور مجرموں کے ساتھ کسی نرمی اور رعایت کو روانہ رکھا جائے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اسی قدر سزا دے سکتا ہوں جس قدر قرآن و حدیث نے مقرر کی ہے‘ جب تک میں کسی کو علانیہ مرتد ہوتے ہوئے نہ دیکھوں اس وقت تک کیسے کسی کو قتل کر سکتا ہوں‘ جن جن جرموں کی حدود مقرر ہیں انہیں پر حد جاری کر سکتا ہوں‘ باقی اپنے خلاف ہر ایک فتنے کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کا عزم رکھتا ہوں‘ غرض اس قسم کی باتیں ہو کر یہ مجلس برخاست ہوئی اور کوئی خاص تجویز اور طرز عمل نہیں سوچا گیا البتہ یہ ضرور ہوا کہ جہاد کے لیے بعض اطراف میں فوجیں روانہ کرنے کا حکم ضرور بعض عاملوں کو دیا گیا۔