تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شخص کے دماغ میں پیدا ہوتے تھے حتیٰ کہ مکہ کی فضا میں ان خونی خیالات نے تمام قبائل کا احاطہ کر لیا۔ بالآخر ماہ صفر کی آخری تاریخوں میں نبوت کے چودہویں سال نبو ہاشم کے سوا تمام قبائل قریش کے بڑے بڑے سرداردارالنددہ میں اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے‘ اس اجلاس میں قریش کے مشہور اور قابل تذکرہ سرداریہ تھے (۱) ابوجہل بن ہشام (قبیلہ بنو مخزوم سے‘) (۲) بیہ (۳) بینہ پسران حجاج (قبیلہ بنو سہم سے‘) (۴) امیہ بن خلف (بنو جمح سے‘) (۵) ابوالبختری بن ہشام ‘ (۶) زمعہ بن اسود‘ (۷) حکیم بن حزام (قبیلہ بنو اسد سے) (۸) نضر بن حارث (قبیلہ بنو عبدالدار سے‘) (۹) عقبہ (۱۰) شیبہ پسران ربیعہ‘ (۱۱) ابوسفیان بن حرب (قبیلہ بنو امیہ سے‘) (۱۲) طعیمہ بن عدی‘ جبیر بن مطعم‘ (۱۳) حارث بن عامر (قبیلہ بنو نوفل سے) ان قابل تذکرہ لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سردار اس مجلس میں شریک تھے‘ ایک بہت تجربہ کار بوڑھا شیطان نجد کا باشندہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوا‘ یہ شیخ نجد اس اجلاس کا پریزیڈنٹ بھی تھا‘ اس پر تو سب کا اتفاق تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک ہی تمام خطرات پیش آئندہ کا مرکز و منبع ہے لہذا زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کیا برتائو کیا جائے۔ ایک شخص نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر زنجیروں سے جکڑ دو اور ایک کوٹھری میں بند کر دو کہ وہیں جسمانی اذیت اور بھوک پیاس کی تکلیف سے ہلاک ہو جائے ۔۔۔۔۔ شیخ نجدی نے کہا کہ یہ رائے اچھی نہیں کیونکہ اس کے رشتہ دار اور پیروسن کر اس کے چھڑانے کی کوشش کریں گے‘ اور فساد بڑھ جائے گا۔ دوسرے شخص نے اپنی رائے اس طرح بیان کی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے جلاوطن کر دو اور پھر مکہ میں داخل نہ ہونے دو‘ اس رائے کو بھی شیخ نجدی نے یہ لائل رد کر دیا‘ غرض اسی طرح اس جلسہ میں تھوڑی تھوڑی دیر تک بھانت بھانت کے جانور بولتے رہے اور شیخ نجدی ہر ایک رائے کا غلط اور نا مناسب ہونا ثابت کرتا رہا۔ بالآخر ابوجہل بولا‘ میری رائے یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک ایک شمشیر زن انتخاب کیا جائے‘ یہ تمام لوگ بیک وقت چاروں طرف سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر گھیر کر ایک ساتھ وار کریں‘ اس طرح قتل کا فعل انجام پذیر ہو گا‘ تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہو جائے گا‘ بنو ہاشم تمام قبائل قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا وہ بجائے قصاص کے دیت قبول کریں گے اور دیت بڑی آسانی سے سب مل کر ادا کر دیں گے۔ ابوجہل کی اس رائے کو شیخ نجدی نے بہت پسند کیا اور تمام جلسہ نے اتفاق رائے سے اس ریزولیوشن کو پاس کیا‘ ادھر دارالندوہ میں یہ مشورہ ہو رہا تھا‘ ادھر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کفار کے تمام مشوروں کی اطلاع دی اور ہجرت کا حکم نازل فرما دیا۔۱؎ سفر کی تیاری آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم مل گیا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں موسم گرما کی دھوپ اور لو سے پناہ لینے کے لئے پوشیدہ ہوتے اور راستے آنے جانے والوں