تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عامر بن طفیل نے اس منت کو پورا کرنے کے لیے ان کو چھوڑ دیا۔ جب یہ قید سے چھوٹ کر بیر معونہ سے مدینہ کو آ رہے تھے تو ان کو دو شخص جو بنو عامر سے تھے راستہ میں ملے‘ عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے ان کو دشمن سمجھ کر اور موقع پا کر انتقاماً قتل کر دیا۔ مدینہ پہنچ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام حالات کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہینے تک ان قاتلوں پر بد دعا فرمائی ۔۔۔۔۔۔ عامر بن طفیل بعد میں طاعون سے ہلاک ہو گیا۔۱؎ وفائے عہد جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرو بن امیہ سے راستہ میں ان دو شخصوں کے قتل کا حال سنا تو فرمایا کہ وہ دونوں تو ہماری امان تھے اور ہم سے عہدو پیمان کر گئے تھے‘ اب ان کا خون بہا دینا ضروری ہے۔‘ یہودیوں کا قبیلہ بنو نضیر قبیلہ بنو عامر کا ہم عہد تھا‘ ادھر مسلمانوں سے بھی ان کا معاہدہ تھا جس کی رو سے ان کو خوں بہا میں مدد کرنی چاہیے تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خون بہا کے معاملہ میں بنو نضیر سے مشورہ کر لینا مناسب سمجھا‘ اور ان کے محلے یا ان کی بستی میں خود تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمارہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی گئے‘ بنو نضیر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لے جانے پر بظاہر خوں بہا میں شرکت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں بٹھایا تھا کہ قلعہ کی منڈیر پر اس جگہ ایک بہت بڑا پتھر دیوار کی طرح سے کھڑا ہوا رکھا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جدا ہو کر انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ بہت اچھا موقع ہے کوئی شخص قلعہ پر چڑھ کر اوپر سے یہ پتھر دھکیل دے تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کچلے جائیں۔ یہود کی شرارت چنانچہ ایک شخص عمروبن حجاثر بن کعب فوراً اوپر چڑھا کہ پتھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر گرائے ابھی وہ پتھر گرانے نہ پایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے بذریعہ وحی یہودیوں کے اس منصوبے سے اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فوراً وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی ۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۰۸۸۴۰۹۰۴۰۹۱۔سیرت ابن ہشام ص ۴۰۲ تا ۴۰۴۔ طرف روانہ ہوئے‘ یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو واپس بلانا چاہا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے ہمارے قتل کرنے کا اس طرح منصوبہ کیا اب ہم کو تمہارا اعتبار نہیں رہا‘ یہودیوں نے اپنے اس منصوبہ سے انکار کیا‘ نہ اظہار ندامت کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں پہنچ کر ان کے پاس پیغام بھیجا کہ دوبارہ عہد نامہ لکھو‘ انہوں نے عہد نامہ لکھنے سے انکار کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر ان کو پیغام دیا کہ اگر عہد نامہ نہیں لکھتے‘ تو یہاں سے دس روز کے اندر جلاوطن ہو جائو اور کسی دوسری جگہ چلے جائو۔ بنو نضیر نے اس کے جواب میں انکار کیا اور لڑائی کے لیے مستعد ہو گئے‘ رسول اللہ