تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲؎ الرحیق المختوم (اردو)‘ صفحہ ۷۹ پر اس واقعہ کی کافی تفصیلات و حالات موجود ہیں۔ رحمت للعالمین جلد ۱ ص ۶۱۔ ۴۰ھ جلوس کسریٰ نوشیروان مطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء بروز دو شنبہ بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔۱؎ ذبیح ثانی عبداللہ بن عبدالمطلب چاہ زمزم کی اصل سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام سے ہے کہ جب وہ اور ان کی ماں سیدنا ہاجرہ رضی اللہ عنہ مکہ کے صحرائے لق و دق میں پیاس سے بیتاب ہوئے تو خدائے تعالیٰ کے حکم سے وہاں پانی کا چشمہ نمودار ہوا۔ سیدنا ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے اس پانی کو چاروں طرف مینڈ باندھ کر گھیر دیا اور وہ ایک کنویں کی صورت بن گیا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی حالت میں رہا۔ اور پھر اس کے بعد مٹی سے وہ اٹ گیا اور رفتہ رفتہ اس کا مقام اور جگہ کسی کو معلوم نہ رہی۔ چاہ زمزم کا صرف تذکرہ ہی تذکرہ لوگوں کی زبان پر رہ گیا تھا۔ جب عبدالمطلب کے ہاتھ میں سقایتہ الحاج کا کام آیا تو انہوں نے چاہ زمزم کا پتہ و مقام تلاش کرنا شروع کیا‘ بہت دنوں تک عبدالمطلب اور ان کا بڑا لڑکا حارث چاہ زمزم کی تلاش میں سرگرداں رہے‘ مگر چاہ زمزم کا پتہ نہ چلا‘ قریش میں سے کسی نے اس کام میں ان کی مدد نہ کی بلکہ باپ بیٹے کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے والد ماجد ایک روز عبدالمطلب نے خواب میں چاہ زمزم کا نشان دیکھا اور کھودنا شروع کیا‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اساف اور نائلہ دو بت رکھے ہوئے تھے‘ قریش مانع ہوئے اور لڑنے کو تیار ہو گئے‘ یہ صرف دو ہی شخص باپ بیٹے تھے‘ کوئی مددگار و معاون ان کا نہ تھا تاہم یہ غالب ہوئے اور کنواں کھودنے کے کام میں مصروف رہے۔ اس وقت عبدالمطلب نے اپنی تنہائی کو محسوس کیا اور منت مانی کہ اگر خدائے تعالیٰ مجھ کو دس بیٹے عطا کرے اور پانی کا چشمہ بھی نکل آئے تو میں اپنے بیٹوں میں سے ایک کو خدا کے نام پر قربان کروں گا۔ چند روز کی محنت کے بعد چشمہ بھی نکل آیا اور خدائے تعالیٰ نے عبدالمطلب کو دس بیٹے عطا کئے‘ چاہ زمزم کے نکل آنے سے قریش میں عبدالمطلب کا سکہ بیٹھ گیا تھا اور سب ان کی سرداری اور بزرگی کے قائل ہو گئے تھے‘ جب عبدالمطلب کے بیٹے جوان ہو گئے تو انہوں نے اپنی مانی ہوئی منت پوری کرنی چاہی‘ سب بیٹوں کو لے کر کعبہ میں گئے اور ہبل کے سامنے قرعہ اندازی کی‘ اتفاق کی بات قرعہ کا ۱؎ رحمت للعالمین جلد ۱ ص ۶۱۔ تیر سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے نام نکلا جو عبدالمطلب کو سب سے زیادہ عزیز تھا‘ عبدالمطلب چونکہ اپنی نذر پوری کرنا چاہتے تھے لہذا عبداللہ کو ہمراہ لے کر قربان گاہ کی طرف چلے‘ عبداللہ کے تمام بھائیوں ‘ بہنوں اور قریش کے سرداروں نے عبدالمطلب کو اس حرکت یعنی عبداللہ کے ذبح کرنے سے باز رکھنا چاہا مگر عبدالمطلب نہ مانے۔ بالآخر بڑی ردو کد کے بعد اس معاملہ میں سجاع نامی کاہنہ کی طرف رجوع کیا گیا‘ اس نے کہا کہ تمہارے ہاں ایک آدمی کا خوں بہا دس اونٹ ہیں پس تم ایک طرف دس اونٹ اور ایک طرف عبداللہ کو رکھو اور قرعہ ڈالو‘ اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکل آئے تو دس اونٹوں کو ذبح کرو اور قرعہ عبداللہ کے نام پرآئے تو دس اونٹ اور بڑھا کر بیس اونٹ