تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فتح مبین صلح نامہ کی تکمیل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے حدیبیہ کے مقام پر قربانیاں کیں احرام کھولے اور حجامتیں بنوائیں‘ اس صلح نامہ یا عہد نامہ کے بعد قبیلہ خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیف ہو گیا اور قبیلہ بنو بکر قریش مکہ کا حلیف بن گیا‘ خزاعہ اور بنوبکر میں مدتوں سے عداوت چلی آتی تھی‘ یہ دونوں چونکہ ایک ایک فریق کے حلیف بن گئے‘ لہٰذا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش کے درمیان امن و امان کے ساتھ رہنے کا عہد ہوا اسی طرح ان دونوں میں بھی صلح قائم ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم حدیبیہ سے مدینے کو واپس تشریف لا رہے تھے تو راستے میں سورہ فتح نازل ۱؎ صحیحبخاریکتابالشروطحدیث۲۷۳۱۲۷۳۲۔ ہوئی اور خدائے تعالی نے اسی صلح کو جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک قسم کی شکست سمجھ رہے تھے فتح مبین قرار دیا‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ صلح اسلام کے لیے فتح مبین ہی تھی‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس کو شکست اس لیے سمجھ رہے تھے کہ بظاہر بعض شرائط میں اپنے آپ کو دبا ہوا اور کمزور پاتے تھے لیکن بہت جلد میں معلوم ہوا کہ وہ کمزور شرائط ہی بے حد مفید شرائط تھیں‘ اسلام کے لیے سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ جنگ و پیکار کا سلسلہ ختم ہو کر امن و امان اور اطمینان حاصل ہوا‘ اسلام جس قدر امن و امان کی حالت میں اپنا دائرہ وسیع کر سکتا ہے لڑائی اور جنگ وجدل کی حالت میں اس قدر نہیں پھیل سکتا‘ اسلام کا اصل منشا ہی یہ ہے کہ دنیا میں انسان امن و امان کی زندگی بسر کرے‘ اسلام کو لڑائی بھی اسی لیے کرنی پڑتی ہے کہ امن و امان قائم ہو‘ اسلامی لڑائیاں لڑائیوں کے لیے نہیں بلکہ لڑائیوں کے مٹانے اور امن و امام قائم کرنے کے لیے تھیں‘ چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد صرف دو برس کے عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔ صلح حدیبیہ کے نتائج معاہدہ کی چوتھی شرط سب سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ناگوار معلوم ہوتی تھی‘ اب اس شرط کے نتائج دیکھئے‘ چند روز کے بعد ایک شخص ابوبصیر رضی اللہ عنہ جو مکہ میں اسلام قبول کر چکے تھے مکہ کے ماند بود سے تنگ آ کر بھاگے اور مدینہ میں آ کر پناہ گزیں ہوئے‘ قریش نے اپنے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجے کہ معاہدہ کے موافق ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس بھیجا جائے‘ آپ رضی اللہ عنہ نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی خواہش پر معاہدہ کی پابندی کو ترجیح دی اور ان دونوں شخصوں کے ہمراہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ تو مکہ میں واپس جانا اپنے لیے موت سے بدتر سمجھتے تھے‘ ذوالحلیفہ پہنچ کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو ایک راہ مفر سوجھی‘ انہوں نے اپنے محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ تمہاری تلوار بڑی اعلیٰ درجہ کی معلوم ہوتی ہے‘ محافظ نے یہ سن کر اپنے ساتھی کی تلوار کو برہنہ کر کے ہاتھ میں لیا اور تعریف کرنے لگا‘ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ذرا مجھے تو دکھائو‘ اس نے تلوار بلاتکلف ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیدی‘ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے تلوار ہاتھ میں