تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم دیا‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ مالک بن نویرہ کے قتل کے سبب پہلے ہی سے سیدنا خالد بن ولید سے ناراض تھے‘ اب عبدالغری اور لبید دو شخص اور مالک بن نویرہ کی فہرست میں شامل ہو گئے‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں کوئی باز پرس نہیں کی اور فرمایا کہ جو شخص اہل شرک کے ساتھ رہے گا اس کا یہی انجام ہو گا۔ ربیعہ بن بحیر تغلبی بھی صاف بچ کر نکل گیاتھا‘ اور ایک جمعیت کثیر فراہم کر کے اہل فارس کی امداد کے لیے تیار ہورہا تھا‘ ہذیل فرار ہو کر مقام یسیر میں عتاب بن اسید کے پاس چلا گیا تھا‘ جہاں عتاب بن اسید بھی مسلمانوں کے خلاف جمعیت کثیر فراہم کر چکا تھا‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ربیعہ کے تعاقب میں توقعقاع رضی اللہ عنہ و ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور ہذیل کے تعاقب میں خود تشریف لے گئے‘ چنانچہ ربیعہ اور اس کے تمام ہمراہی مقتول ہوئے‘ یسیر میں عتاب بن اسید اور ہذیل دونوں معہ اکثر ہمرائیوں کے مسلمانوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوئے‘ اس کے بعد ہی معلوم ہوا کہ مقام رضافہ میں ہلال بن عقبہ نے اپنے گرد مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑی جمعیت فراہم کر لی ہے‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بلاتوقف یسیر سے رضافہ کی طرف روانہ ہوئے‘ وہاں خالد رضی اللہ عنہ کی آمد سن کر دشمن فرار ہوئے اور بھاگ کر رضاب اور فراض کی طرف چلے گئے‘ یہ مقامات دومۃ الجندل کے متصل اور فارس و شام و عرب کے مقام اتصال پر واقع تھے‘ یہاں بنو تغلب بنو نمبر بنو ایاد کا پہلے سے اجتماع تھا‘ اور رومی لشکر ان کی امداد کے لیے آیا ہوا۔۔۔ قریب ہی خیمہ زن تھا‘ اس طرح لڑائیوں کاسلسلہ جو عراق کے نشیبی حصے سے شروع ہوا تھا‘ ایرانی فوجوں سے گذر کر درمیانی قبائل اور رئوسا کی بدولت رومی لشکر تک پہنچ گیا۔ جنگ فراض خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فراض میں پہنچ کر لڑائی کی تمہید ڈال دی‘ یہ مقام دریائے فرات کے کنارے تھا‘ دوسری طرف رومی لشکر خیمہ زن تھا‘ رومی لشکر نے پیغام بھیجا کہ یا تو تم دریائے فرات کے اس طرف آ جائو‘ یا ہم کو اس طرف عبور کرنے دو‘ تاکہ ہمارے تمہارے دو دو ہاتھ ہوں‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم ہی اس طرف آ جائو‘ چنانچہ رومی لشکر دریا کو عبور کر کے اسلامی لشکر کے مقابل ہوا۔ اسلامی لشکر مسلسل سفر اور لڑائیوں سے چور چور ہو رہا تھا‘ رومی بالکل تازہ دم تھے تعداد کے اعتبار سے بھی وہ آٹھ دس گنے تھے‘ لڑائی شروع ہوئی‘ تمام دن ہنگامہ کار زار گرم رہا‘ بالآخر رومی لشکر کو شکست فاش نصیب ہوئی‘ اور وہ میدان میں ایک لاکھ لاشیں چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگے‘ اس لڑائی سے فارغ ہو کر ۲۵ ذیقعدہ ۱۲ ھ کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شجرہ بن الاغر کے ہمراہ تمام لشکر کو حیرہ کی جانب واپس روانہ کیا اور خود چند ہمراہیوں کو لے کر مقام فراض سے روانہ ہوئے‘ اور مکہ معظمہ میں پہنچ کر حج بیت اللہ میں شریک ہوئے۔ حج سے فارغ ہو کر فوراً حیرہ کی جانب چل دئیے‘ حیرہ میں پہنچ کر جب آپ شریک ہوئے ہیں تو کسی شخص کو اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوا کہ یہ حج کر کے آئے ہیں اتفاقاً یہ خبر چھپی نہ رہ سکی‘ اور رفتہ رفتہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے کانوں تک