تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلواروں کے زور سے فتح کیا ہے تم اس کو اپنی قوم کا بستان خیال کرتے ہو‘ ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی اس قسم کی باتیں شروع کیں‘ شور و غل بلند ہوا تو عبدالرحمن اسدی نے لوگوں کو شورو غل مچانے سے منع کیا‘ اس پر سب نے مل کر عبدالرحمن کو مارا اور اس قدر زد و کوب کیا کہ بیچارہ بیہوش ہو گیا‘ اس واقعہ کے بعد سعید بن العاص نے رات کی صحبت موقوف کر کے دربان مقرر کر دئیے کہ لوگوں کو آنے سے باز رکھیں اس رات کی روزانہ مجلس کے برخاست ہونے کا لوگوں کو بہت ملال ہوا اور اب عام طور پر جہاں دو چار آدمی مل کر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے سعید بن العاص کی اور ان کے ساتھ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بھی شکایات زبان پر لاتے‘ ان شکایت کرنے والوں کے گرد اور بہت سے بازاری آدمی جمع ہو جاتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ طویل ہوا اور فتنہ بڑھنے لگا تو سعید بن العاص نے یہ تمام روئیداد سیدنا عثمان غنی کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی‘ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباً سعید بن العاص کو لکھا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دو‘ چنانچہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے سب کو شام کی طرف روانہ کر دیا‘ وہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خوب خاطر مدارت کی‘ ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھاتے اور سب کا روزینہ بھی مقرر کر دیا‘ بات یہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا تھا کہ چند سرکش لوگوں کی ایک جماعت تمہاری طرف بھجوائی جاتی ہے تم کوشش کرو کہ وہ راہ راست پر آ جائیں‘ اسی لیے امیر معاویہ نے ان لوگوں کے ساتھ نہایت محبت و ہمدردی کا برتائو کیا‘ چند روز کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قریش کی سیادت کو تسلیم کریں اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق کو درہم برہم نہ ہونے دیں‘ لیکن صعصہ بن صوحان نے امیر معاویہ کی نہایت معقول اور ہمدردانہ باتوں کا بہت ہی غیر معقول اور سراسر نادرست جواب دیا اور اپنی ضد پر اڑا رہا‘ مجبوراً امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نظر نہیں آتے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ ان لوگوں کو حمص کی جانب عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیج دو‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حمص کی جانب روانہ کر دیا‘ عبدالرحمن بن خالد والی حمص نے ان کے ساتھ ان کے حسب حال سختی و درشتی کا برتائو کیا‘ حتی کہ اپنی مجلس میں ان کو بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں دی‘ چند روز کے بعد یہ لوگ سیدھے ہو گئے اور اپنی سابقہ سرکشی کی حرکات پر اظہار افسوس کیا‘ عبدالرحمن بن خالد نے اس کی اطلاع دربار خلافت کو لکھ کر بھیجی‘ وہاں سے اجازت آ گئی کہ اگر یہ لوگ اب کوفہ کی طرف جانا چاہیں تو جانے دو۔ عبداللہ بن سبا عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء شہر صنعا کا رہنے والا ایک یہودی تھا‘ وہ سیدنا عثمان غنی کے عہد خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو دولت خوب حاصل ہوتی ہے اور اب یہی دنیا میں سب سے بڑی فاتح قوم بن گئی ہے مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل ہو گیا‘ مدینہ میں اس کا آنا اور رہنا بہت ہی غیر معروف اور ناقابل التفات تھا لیکن اس نے مدینہ میں رہ کر مسلمانوں کی اندرونی اور داخلی کمزوریوں کو خوب جانچا اور مخالف اسلام تدابیر کو خوب سوچا‘ انہیں ایام میں بصرہ کے اندر ایک شخص حکیم بن جبلہ رہتا تھا‘ اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ اسلامی لشکر کے ساتھ ھکسی فوج میں