تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محض سستی کی وجہ سے آج‘ کل‘ کرتے رہے اور سامان سفر کی درستی نہیں کی یہاں تک کہ لشکر اسلام مدینہ سے روانہ ہو گیا‘ اس کے بعد بھی سستی کی وجہ سے روانہ نہ ہو سکے‘ اب جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے واپس ہو کر مدینے تشریف لائے تو ان تینوں نے حاضر خدمت ہو کر صاف صاف اقرار کیا‘ ان کے لیے حکم صادر ہوا کہ کوئی شخص ان تینوں سے ہم کلام نہ ہو‘ پچاس دن تک یہ برابر توبہ استغفار کرتے رہے‘ تب خدائے تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ ان کی توبہ مقبول ہو گئی ہے‘ جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہوئی کوئی شخص حتی کہ ان کے گھر والے بھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیتے تھے‘ ان کو سلام کا جواب بھی لوگوں سے نہ ملتا تھا‘ زندگی ان کے لیے وبال جان اور دو بھر تھی‘ یہ کیفیت جب مشہور ہو کر غسانی بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے اپنا ایلچی خط دے کر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ تم ایک رئیس اور شریف آدمی ہو‘ تمہارے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت ہی برا ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۳۹۔ ۲؎ ’’اور (ان میں ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنائی ہے تاکہ ضرر پہنچائیں۔‘‘ (التوبۃ: ۹ں۱۰۷) ۳؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۴۱ و ۵۴۲۔ سلوک کیا ہے‘ تم میرے پاس چلے آئو میں تمہاری خوب عزت اور دل دہی کروں گا‘ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے یہ خط پڑھ کر تنور میں ڈال دیا اور ایلچی سے کہا کہ جائو اس کا یہی جواب تھا‘ جب سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ مقبول ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو مبارک باد دی تو انہوں نے اپنا تمام مال اللہ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کر دیا۔۱؎ اہل طائف کا قبول اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوہ تبوک سے واپس تشریف لانے کی خبر اہل طائف نے سنی تو ان کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں سے لڑنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے‘ سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو طائف میں شہید ہوئے تھے ان کے لڑکے ابوالملیح رضی اللہ عنہ ‘ اور بعض دوسرے آدمی اہل طائف سے مدینہ میں آ کر مسلمان ہو چکے تھے‘ تبوک سے واپس ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عبدیا لیل بن عمرو اہل طائف کی طرف سے وکیل بن کر آئے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا‘ عبدیا لیل اور ان کے ہمراہیوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر بیعت کی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو حکمراں مقرر فرما دیا اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لات کے بت اور مندر کے منہدم کرنے کے لیے روانہ کیا‘ بت خانے کے خزانہ میں سے جو مال برآمد ہوا اس سے سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قرضہ ادا کیا گیا‘ باقی مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تبوک سے مدینے میں واپس آتے ہی پھر وفود کا سلسلہ جاری ہو گیا‘ برابر وفود آتے‘ اسلام قبول کرتے اپنی اپنی قوم کی طرف سے بیعت کرتے اور تعلیم اسلام کے لیے معلم ہمراہ لے کر واپس ہوتے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ایک