تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
قومیت کی گمراہی مسیلمہ کے پاس قبیلہ ربیعہ کے چالیس ہزار جنگ جو جمع ہو گئے تھے‘ ان لوگوں میں بعض ایسے بھی تھے جو مسیلمہ کو نبوت کے دعوے میں جھوٹا سمجھتے تھے‘ مگر ہم قومیت کے سبب اس کی کامیابی کے خواہاں تھے‘ ان لوگوں کا قول تھا کہ مسیلمہ جھوٹا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچے ہیں‘ لیکن ہم کو ربیعہ کا جھوٹا نبی مضر کے سچے نبی سے زیادہ عزیز ہے‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کوروانہ کرنے کے بعد سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی امداد و اعانت کے لیے اور فوجیںبھی روانہ کیں جو راستہ میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوتی رہیں ‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے لشکر کی کل تعداد تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی‘ جب شہر یمامہ ایک دن کے راستہ پر رہ گیا تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے ایک دستہ بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا۔ اسی روز مسیلمہ نے مجاعہ بن مرارہ کو ساٹھ آدمیوں کی جماعت کے ساتھ روانہ کیا تھا کہ جا کر بنو تمیم پر شب خون مارے‘ مجاعہ کا مقابلہ لشکر اسلام کے مقدمۃ الجیش سے ہو گیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کہ تمام مرتدین مقتول ہوئے اور ان کے سردار مجاعہ کو گرفتار کر کے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر شہر یمامہ کے قریب پہنچے تو مسیلمہ شہر یمامہ سے نکل کر دروازہ شہر کے قریب ایک باغ میں جس کا نام اس نے حدیقۃ الرحمن رکھا تھا خیمہ زن ہوا‘ اس باغ کی چار دیواری خوب مضبوط اور قلعہ نما تھی‘ لشکر مسیلمہ کی سپہ سالاری رجال بن عنفوہ اور محکم بن طفیل کے سپرد تھی۔ گھمسان کا مقابلہ انہوں نے چالیس ہزار کے لشکر جرار کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کے تیرہ ہزار مسلمانوں پر حملہ آور کیا‘ یہ حملہ نہایت سخت اور زلزلہ انداز تھا‘ مسلمانوں نے نہایت صبرو استقلال کے ساتھ اس حملہ کو روکا اور ہر طرف سے سمٹ کر اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر دشمنوں پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہوئے تو لشکر کذاب کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ بدحواسی کے عالم میں آوارہ و فرار ہونے لگے‘ محکم بن طفیل نے اپنے لشکر کی یہ حالت دیکھ کر بلند آواز سے کہا کہ ’’ اے بنو حنیفہ باغ میں داخل ہو جائو اور میں تمہارے پیچھے آنے والے حملہ آوروں کو روک رہا ہوں‘ یہ آواز سن کر بھاگنے والے سب باغ میں داخل ہو گئے‘ محکم بن طفیل تھوڑی دیر لڑتا رہا‘ آخر عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مقتول ہوا‘ لیکن ابھی تک فتح و شکست کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘ مرتدین بھی سنبھل کر پھر مقابلہ پر ڈٹ گئے اور طرفین سے داد شجاعت دی جانے لگی‘ مسلمانوں کے علمبردار سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علم اپنے ہاتھ میں لے لیا‘ مسلمانوں نے ایسی چپقلش مردانہ دکھائی کہ دشمن پیچھے ہٹتے ہٹتے باغ کی دیواروں کے نیچے پہنچ گیا‘ باغ کے دروازے پر تھوڑی دیر تک سخت لڑائی ہوئی‘ آخر مسلمانوں نے باغ کا دروازہ بھی توڑ دیا اور جا بجا سے دیواریں توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ لوگوں نے مسیلمہ سے دریافت کیا ’’کہ وہ فتح کا وعدہ کب پورا ہو گا جو تیرا اللہ تعالیٰ تجھ سے کر چکا ہے‘‘ اس نے جواب دیا کہ یہ وقت ایسی باتوں کے دریافت کرنے کا نہیں ہے‘ ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے لڑے‘ باغ کے اندر بھی جب ہنگامہ زور