تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور رسے کاٹ دئیے اور کہا کہ لوگو! اب بھاگنے کا راستہ بھی بند ہو گیا‘ لہذا مرو جس طرح تمہارے بھائی اور تمہارے سردار شہید ہو چکے ہیں‘ پل کے ٹوٹنے سے یہ خرابی واقع ہوئی کہ لوگ دریا میں کودنے اور پانی میں غرق ہونے لگے‘ سیدنا مثنی بچی کچھی فوج سمیٹ کر اور ابومحجن ثقفی وغیرہ سرداروں کو ہمراہ لے کر میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے‘ ساتھ ہی پل کے تیار کرنے کا حکم دیا اور تمام لشکر میں اعلان کرایا کہ میں ایرانی لشکر کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہوں‘ اطمینان کے ساتھ پل کے راستے دریا کو عبور کرو‘ سیدنا مثنی نے بڑی بہادری اور جاں بازی کے ساتھ ایرانیوں کے حملے کو روکا اور جب مسلمان دریا کے دوسری طرف عبور کر گئے تب سب سے آخر میں خود پل کے راستے اس طرف آئے۔ مسلمانوں کی تعداد نو ہزار تھی جس میں سے چار ہزار اور بروایت دیگر چھ ہزار شہید ہو گئے‘ سیدنا سلیط بن قیس‘ عقبہ و عبداللہ پسران قبطی بن قیس‘ عباد بن قیس بن السکن‘ ابوامیہ فزاری وغیرہ صحابی بھی انہیں شہداء میں شامل تھے‘ ایرانیوں کے بھی چھ ہزار آدمی مارے گئے‘ لیکن اب تک کی تمام لڑائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا اس لڑائی میں نسبتاً زیادہ نقصان ہوا تھا‘ اور اسی لڑائی میں ایسا اتفاق بھی ہوا کہ مسلمان ایرانیوں کے مقابلے سے فرار بھی ہوئے‘ لیکن ہر ایک شخص جو فرار کی عار گوارا کرنے پر مجبور ہوا مدت العمر ندامت و شرمندگی سے لوگوں کو اپنا منہ نہ دکھانا چاہتا تھا‘ بہمن جادویہ کی اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ فرات کو عبور کر کے مسلمانوں پر جو بہت ہی تھوڑے اور خستہ حالت میں رہ گئے تھے حملہ آور ہوتا‘ وہ وہیں سے مدائن کی جانب چل دیا‘ یہ لڑائی ماہ شعبان ۱۳ ھ کو واقع ہوئی۔ جنگ بویب سیدنا فاروق اعظم کو جب ابوعبیدہ بن مسعود ثقفی کی شہادت‘اور مسلمانوں کے نقصان عظیم کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے خاص اہتمام کے ساتھ ایرانیوں کے مقابلہ کی تیاریاں شروع کیں‘ قبائل کی طرف قاصد بھیجے اور لوگوں کو لڑائی کے لیے ترغیب دی‘ چنانچہ متعدد قبائل فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدینہ منورہ سے مثنی بن حارثہ کی امداد کے لیے عراق کی طرف روانہ کئے گئے‘ سیدنا مثنی نے بھی عراق عرب میں فوجی بھرتی جاری کر کے ایک نئی فوج عراق عرب کی مرتب فرما لی تھی۔ ان تیاریوں کا حال دوبارہ ایران کو معلوم ہوا تو وہاں سے رستم (ایران کا وزیراعظم اور وزیر جنگ) نے مہران ہمدانی کو سالار جنگ بنا کر بارہ ہزار انتخابی فوج کے ساتھ روانہ کیا‘ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے ملک عرب میں تربیت و پرورش پائی تھی‘ اور وہ اہل عرب کی اور عربی لشکر کی صحیح قوت کا اندازہ کر سکتا تھا‘ سیدنا مثنی نے مہران ہمدانی کی روانگی کا حال سن کر اپنی تمام افواج کو دریائے فرات کے کنارے مقام بویب میں مجتمع کیا‘ مہران بھی بویب کے بالمقابل فرات کے دوسرے کنارے پہنچ کر خیمہ زن ہوا اور مثنی کے پاس پیغام بھیجا کہ تم خود دریائے فرات کو عبور کر کے اس طرف آئو یا ہم کو دریائے فرات کے عبور کرنے کا موقع دو کہ ہم اس طرف آ کر صفوف آراستہ کریں‘ سیدنا مثنی چوں کہ گذشتہ جنگ میں دریا کے عبور کرنے کا تلخ تجربہ دیکھ چکے تھے‘ لہذا انہوں نے جواباً کہلا بھیجا کہ تم ہی فرات کو عبور کر کے اس طرف آ جائو‘ چنانچہ مہران اپنی تمام ایرانی افواج اور جنگی ہاتھیوں کو لے کر دریا کے اس طرح آیا‘ اور سب سے آگے پیادوں کو رکھ کر ان کے پیچھے ہاتھیوں