تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے مطالبہ کو بہانہ بنا کر خلافت و امارت کا دعویٰ کرو‘ اے معاویہ رضی اللہ عنہ تم اپنے خام خیال سے درگذر کرو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جھگڑا نہ کرو‘ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سختی سے جواب دیا‘ شبث نے بھی ویسا ہی ترکی بترکی جواب دیا اور یہ سفارت بلا نتیجہ واپس چلی آئی۔ جنگ صفین کا پہلا حصہ جب صلح کی کوشش ناکام رہی تو مجبوراً لڑائی شروع ہوئی مگر چونکہ دونوں طرف مسلمان اور ایک دوسرے کے عزیز دوست تھے‘ لہذا دونوں میں جدال و قتال کا ویسا جوش نہ تھا جیسا کفار کے مقابلہ میں ہوا کرتا تھا‘ عام طور پر لوگ یہی چاہتے تھے کہ یہ لڑائی ٹل جائے اور مصالحت ہو جائے۔ لڑائی کی صورت یہ تھی کہ ایک ایک آدمی طرفین سے میدان میں نکلتا اور ایک دوسرے سے لڑتا‘ باقی لشکر دونوں طرف سے اس لڑائی کا تماشا دیکھتا‘ چند روز تک تو روزانہ اس جنگ مبارزہ ہی کا سلسلہ جاری رہا‘ پھر لڑائی نے کسی قدر ترقی اور اشتعال کی صورت اختیار کی‘ تو صرف یہیں تک محدود رہی کہ طرفین سے ایک ایک سردار اپنی اپنی محدود جماعت لے کر نکلتا اور اس طرح ایک جماعت کی دوسری جماعت سے معرکہ آرائی ہوتی رہی‘ باقی لشکر اپنی جگہ خاموش اور تماشائی رہتا‘ یہ سلسلہ ایک مہینہ تک جاری رہا‘ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک دونوں لشکر نے آئندہ بڑی خوں ریز جنگ کے لیے آپس میں جنگی مشق کو جاری رکھا۔ اس ایک مہینے کی معرکہ آرائیوں کو جنگ صفین کا پہلا حصہ سمجھنا چاہیے‘ ماہ ذی الحجہ ختم ہو کر جب محرم کا مہینہ شروع ہوا تو یکم محرم ۳۷ ھ سے آخر محرم ۳۷ ھ تک ایک میہنے کے لیے طرفین نے لڑائی کی بالکل تعطیل کر دی‘ اس ایک مہینے میں دونوں طرف کی فوجیں بالکل خاموش رہیں‘ مصالحت کی گفتگو اور سلسلہ جنبانی پھر جاری ہو گئی۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محرم کے اس ایک مہینے میں مسلمانوں کی دونوں فوجوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ بلاز دو خورد خیمہ زن ہونا ضرور یہ نتیجے پیدا کر دیتا اور یہ خیال خود بخود طاقت پیدا کر لیتا کہ جنگ سے صلح بہرحال بہتر ہے‘ اور مسلمانوں کو ہرگز آپس میں نہیں لڑنا چاہیے‘ جب تمام لشکری لوگوں میں یہ کرہ ہوائی پیدا ہو جاتا‘ تو سرداران لشکر کو بھی مجبوراً صلح پر رضا مند ہونا پڑتا‘ لیکن اس سکون اور خاموشی کے ایام میں سبائی جماعت جو شریک لشکر تھی‘ اور جس کا کوئی جداگانہ وجود نہ تھا بڑی سرگرمی سے مصروف کار رہی‘ اس نے اپنی انتہائی کوشش اس کام میں صرف کر دی کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت و رعایت مطلق پیدا نہ ہو سکے اور نفرت و عداوت ترقی کرے‘ سردارن لشکر کی حالت یہ تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی طرح خلافت سے دست بردار نہیں ہو سکتے‘ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائی لوگوں کو بھی سزا نہ دے سکتے تھے‘ کیونکہ مالک اشتر جیسے زبردست سپہ سالار‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے گورنر‘ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جیسے محترم صحابی رضی اللہ عنہ کو سزا دینا اور تمام کوفی و مصری لشکر کو باغی اور دشمن بنا لینا کوئی آسان کام نہ تھا‘ نیز یہ کہ قاتلین اور سازش قتل کے شرکاء کا تعین شہادتوں کے ذریعہ امرمشتبہ کی حد سے آگے بڑھ کر یقین کے درجہ تک نہیں پہنچتا تھا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں وہ یقینا ہر طرح مستحق