تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عیسائی ان سے واقف تھے‘ لیکن بیت المقدس کے عیسائیوں نے صلح کی شرائط میں ایک خاص شرط کا اضافہ ضروری و لازمی قرار دیا‘ وہ یہ کہ عہد نامہ خود خلیفہ وقت آ کر لکھے۔ ارطبون بطریق بیت المقدس سے نکل کر مصر کی طرف بھاگ گیا تھا‘ رئوسا شہر اور شرفائے بیت المقدس ہی مدافعت میں استقامت دکھا رہے تھے اور اب شہر کا قبضہ میں آ جانا کچھ بھی دشوار نہ تھا‘ لیکن سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے یہی مناسب سمجھا کہ جہاں تک ہو سکے کشت و خون کا امکان محدود کیا جائے اور جنگ پر صلح کو فوقیت دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ان حالات کا ایک خط لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ آپ کے یہاں تشریف لانے سے بیت المقدس بلا جنگ قبضہ میں آ سکتا ہے‘ فاروق اعظم نے اس خط کے پہنچنے پر اھل الرائے حضرات کو مسجد نبوی میں بغرض مشورہ طلب کیا‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عیسائی اب مغلوب ہو چکے ہیں‘ ان میں مقابلے اور مدافعت کی ہمت و طاقت نہیں رہی‘ آپ بیت المقدس کا سفر اختیار نہ کریں‘ خدائے تعالیٰ عیسائیوں کو اور بھی زیادہ ذلیل کرے گا اور وہ بلاشرط شہر کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں گے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے میں آپ کو ضرور جانا چاہیے۔ فاروق اعظم کا سفر فلسطین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی کی رائے کو پسند کیا اور روٹیوں کا ایک تھیلا‘ ایک اونٹ‘ ایک غلام‘ ایک لکڑی کا پیالہ ہمراہ لے کر اور اپنی جگہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما کر روانہ ہو گئے‘ آپ کے اس سفر کی سادگی و جفاکشی عام طور پر مشہور ہے‘ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور سیدنا فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی غلام اونٹ پر سوار ہوتا اور فاروق اعظم اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے آگے چلتے‘ یہ اس عظیم الشان شہنشاہ اور خلیفہ اسلام کا سفر تھا جس کی فوجیں قیصرو کسریٰ کے محلات اور تخت و تاج کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں میں روند چکی تھیں۔ یہ مہینہ جس میں فاروق اعظم کا یہ سفر شروع ہوا ہے رجب کا مہینہ تھا اور ۱۶ ھ جب کہ مدائن و انطاکیہ فتح ہو چکے تھے‘ عزم روانگی کے ساتھ ہی روانگی سے پہلے آپ نے دمشق و بیت المقدس کی اسلامی افواج کے سردار کو اطلاع دے دی تھی‘ سب سے پہلے یزید بن ابی سفیان‘ ان کے بعد ابوعبیدہ بن جراح‘ ان کے بعد سیدنا خالد بن ولید نے آپ کا استقبال کیا‘ آپ نے ان سرداروں کو خوبصورت اور شان و شوکت کے لباس میں اپنے استقبال کو آتے دیکھا‘ دیکھ کر طیش و غضب کا اظہارفرمایا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے دو ہی برس میں عجمیوں کی خوبو اختیار کر لی‘ مگر جب ان سرداروں نے فرمایا کہ ہماری ان پر تکلف قبائوں کے نیچے سلاح حرب موجود ہیں اور ہم عربی اخلاق پر قائم ہیں تب آپ کو اطمینان ہوا۔ عیسائیوں کو امان نامہ آپ مقام جابیہ میں مقیم ہوئے‘ یہیں رئوساء بیت المقدس آپ کی ملاقات کو حاضر ہوئے اور یہ عہد نامہ آپ نے اپنے سامنے ان کو لکھوایا۔ ’’یہ وہ امان نامہ ہے جو امیرالمومنین عمر نے ایلیا والوں کو دیا ہے‘ ایلیا والوں کی جان و